محمل ابراہیم
لائبریرین
پہنا سکتی اگر اپنے دُکھوں کو لفظ کا جامہ
کہ گر لکھ سکتا احساسات کو خامہ
تو پھر ہر روز کاغذ پر جنازے اٹھتے لفظوں کے
قلم لکھتا روانی سے میرے غم کا الم نامہ
بہت سی داستانوں کو مکمل کر نہیں پائی
روایت کو نبھانے میں ادھورا ہے ہر افسانہ
رعایا ہوں بظاہر میں مگر دل ہے شہنشاہ کا
حکومت خود پہ ہے میری نہیں میں رضیہ سلطانہ
وطن کی روزگاری کو بڑھاوا دے سکا نہ جو
وہ کہتا ہے رعایا سے کہ دے دو جاں کا نذرانہ
بچھا دے پھول راہوں میں محبت عین ایماں ہے
لگا دے جان کی بازی تو ہو جا سب سے بیگانہ
وہ دھبّے جو نمایاں ہیں بہ شکلِ پیشوائے قوم
وہی کرتے ہیں آتش کی نذر گندم کا ہر دانہ
کہ گر لکھ سکتا احساسات کو خامہ
تو پھر ہر روز کاغذ پر جنازے اٹھتے لفظوں کے
قلم لکھتا روانی سے میرے غم کا الم نامہ
بہت سی داستانوں کو مکمل کر نہیں پائی
روایت کو نبھانے میں ادھورا ہے ہر افسانہ
رعایا ہوں بظاہر میں مگر دل ہے شہنشاہ کا
حکومت خود پہ ہے میری نہیں میں رضیہ سلطانہ
وطن کی روزگاری کو بڑھاوا دے سکا نہ جو
وہ کہتا ہے رعایا سے کہ دے دو جاں کا نذرانہ
بچھا دے پھول راہوں میں محبت عین ایماں ہے
لگا دے جان کی بازی تو ہو جا سب سے بیگانہ
وہ دھبّے جو نمایاں ہیں بہ شکلِ پیشوائے قوم
وہی کرتے ہیں آتش کی نذر گندم کا ہر دانہ