یاسر علی
محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
آئینہ
کاش کے آئنہ تیرے حسیں گھر کا ہوتا
میں نے جی بھر کے ترے حسن کو دیکھا ہوتا
جب کبھی حسرَتِ دیدار سے دیکھا کرتی
میں ترے حسن کی حدت سے دمکنے لگتا
جب کبھی بندِ قَبا کھولنے لگتی جاناں
تیری زلفوں میں لگے پھول کو دیکھا کرتا
میں ترے پیار کی خوشبو سے مہکنے لگتا
جب کبھی موڈ میں تُو آکے سنورنے لگتی
مستِئ عشق مرے جسم میں بھرنے لگتی
تُو مری روح میں دل میں ہی بکھرنے لگتی
حسن جب دیکھ کے تُو اپنا ذرا شرماتی
خود ہی خود میں بہت دیر تلک ہستی تُو
مجھ میں جب دیکھ لیا حُسنِ ادا کرتی تُو
تو بہت دیر تلک مجھ میں ہی ڈوبی رہتی
آنکھ سے آنکھ تری چوم لیا کرتا میں
جب کبھی آنکھ سے تُو آنکھ ملایا کرتی
رات کو سوتے ہوئے دیکھ کے سویا کرتی
صبح اٹھتے ہوئے پہلے مجھے دیکھا کرتی
پاس ہر وقت مرے خود ہی کھڑی تُو رہتی
ہم کبھی ملنے کو مجبور نہ ہوتے جاناں
ساتھ ہی رہتے کبھی دور نہ ہوتے جاناں
میں ترے کمرے کی دیوار پہ لٹکا رہتا
کاش کے آئنہ تیرے حسیں گھر کا ہوتا
محمّد احسن سمیع :راحل:
آئینہ
کاش کے آئنہ تیرے حسیں گھر کا ہوتا
میں نے جی بھر کے ترے حسن کو دیکھا ہوتا
جب کبھی حسرَتِ دیدار سے دیکھا کرتی
میں ترے حسن کی حدت سے دمکنے لگتا
جب کبھی بندِ قَبا کھولنے لگتی جاناں
تیری زلفوں میں لگے پھول کو دیکھا کرتا
میں ترے پیار کی خوشبو سے مہکنے لگتا
جب کبھی موڈ میں تُو آکے سنورنے لگتی
مستِئ عشق مرے جسم میں بھرنے لگتی
تُو مری روح میں دل میں ہی بکھرنے لگتی
حسن جب دیکھ کے تُو اپنا ذرا شرماتی
خود ہی خود میں بہت دیر تلک ہستی تُو
مجھ میں جب دیکھ لیا حُسنِ ادا کرتی تُو
تو بہت دیر تلک مجھ میں ہی ڈوبی رہتی
آنکھ سے آنکھ تری چوم لیا کرتا میں
جب کبھی آنکھ سے تُو آنکھ ملایا کرتی
رات کو سوتے ہوئے دیکھ کے سویا کرتی
صبح اٹھتے ہوئے پہلے مجھے دیکھا کرتی
پاس ہر وقت مرے خود ہی کھڑی تُو رہتی
ہم کبھی ملنے کو مجبور نہ ہوتے جاناں
ساتھ ہی رہتے کبھی دور نہ ہوتے جاناں
میں ترے کمرے کی دیوار پہ لٹکا رہتا
کاش کے آئنہ تیرے حسیں گھر کا ہوتا