محمل ابراہیم
لائبریرین
نہ بچپن کی امنگیں ہیں نہ ہیں وہ شوخیاں باقی
تعاقب میں تھے جن کے ہم نہیں وہ تتلیاں باقی
ہوئی مدت کہ میں زندہ تھی پر اب زیرِ مدفن ہوں
ملا ہے جسم مٹّی میں نہ ہے اب اس میں جاں باقی
مرے قدموں کی مدھم چھاپ جو گھر تک پہنچتی تھی
نہ اس کا نقش قائم ہے نہ ہے نام و نشاں باقی
مرے احباب، میرے یار، وہ اُن سے ملاقاتیں
نہ ہنسنا روٹھنا باقی نہ ہیں وہ مستیاں باقی
کبھی تنہائیوں میں احتسابِ نفس کر کر کے
ندامت کے لہو رونا نہ وہ آہ و فغاں باقی
فقط اجسام مرتے ہیں کبھی روحیں نہیں مرتیں
سو تم ایسے جئے جاؤ کہ ہوں کچھ مدح خواں باقی
سخنور وہ ہی بہتر ہے جو دل لکھے تو جاں پھوٹے
وگر نہ ایسے ویسوں کے کہاں نام و نشاں باقی
ابھی تو رقم کرنے ہیں دلِ بیتاب کے قصّے
ابھی وہ درد لکھنے ہیں کہ ہے جن کا بیاں باقی
وہ ہیرے کی کنی ہے میں دیا ہوں ایک مٹّی کا
نہ اس کا نُور قائم ہے نہ ہے میرا نشاں باقی
نکلتا ہے سحر کا دم تو وارد رات ہوتی ہے
جو یکجا کر دئے جائیں تو ہوگا کچھ کہاں باقی
تعاقب میں تھے جن کے ہم نہیں وہ تتلیاں باقی
ہوئی مدت کہ میں زندہ تھی پر اب زیرِ مدفن ہوں
ملا ہے جسم مٹّی میں نہ ہے اب اس میں جاں باقی
مرے قدموں کی مدھم چھاپ جو گھر تک پہنچتی تھی
نہ اس کا نقش قائم ہے نہ ہے نام و نشاں باقی
مرے احباب، میرے یار، وہ اُن سے ملاقاتیں
نہ ہنسنا روٹھنا باقی نہ ہیں وہ مستیاں باقی
کبھی تنہائیوں میں احتسابِ نفس کر کر کے
ندامت کے لہو رونا نہ وہ آہ و فغاں باقی
فقط اجسام مرتے ہیں کبھی روحیں نہیں مرتیں
سو تم ایسے جئے جاؤ کہ ہوں کچھ مدح خواں باقی
سخنور وہ ہی بہتر ہے جو دل لکھے تو جاں پھوٹے
وگر نہ ایسے ویسوں کے کہاں نام و نشاں باقی
ابھی تو رقم کرنے ہیں دلِ بیتاب کے قصّے
ابھی وہ درد لکھنے ہیں کہ ہے جن کا بیاں باقی
وہ ہیرے کی کنی ہے میں دیا ہوں ایک مٹّی کا
نہ اس کا نُور قائم ہے نہ ہے میرا نشاں باقی
نکلتا ہے سحر کا دم تو وارد رات ہوتی ہے
جو یکجا کر دئے جائیں تو ہوگا کچھ کہاں باقی