برائے اصلاح

گر یہ خوابوں کی عنایت نہیں ہوتی
یاد ہم کو تری صورت نہیں ہوتی

بے بسی میری سمجھ تو اے ستم گر
اختیاری یہ محبت نہیں ہوتی

میر کی بات سے انکار نہیں پر
پنکھڑی میں وہ نزاکت نہیں ہوتی

شیر کی نہر کی شیریں کو طلب ہے
ہم سے فرہاد کو ہمت نہیں ہوتی

آج ساقی تو تکلف نہ برتنا
روز اپنی بھی طبیعت نہیں ہوتی

وقت کے ساتھ ہوئے مضمحل اعضا
یاد لیکن تری رخصت نہیں ہوتی

اک زمانہ تھا کہ دیوانہ تھا عمران
اب اسے تیری ضرورت نہیں ہوتی
 
آخری تدوین:
وقت کے ساتھ ہوئے مضمحل اعضا
یاد لیکن تری رخصت نہیں
یہ شعر واضح نہیں، یا میں نہیں سمجھ سکا.

اس کے علاوہ مجھے تو ٹھیک ہی لگ رہی ہے، اگرچہ یہ بحر اتنی پسند نہیں.
باقی استاد محترم ہی بہتر بتا سکتے ہیں.

دعاگو،
راحل.
 
یہ شعر واضح نہیں، یا میں نہیں سمجھ سکا.

اس کے علاوہ مجھے تو ٹھیک ہی لگ رہی ہے، اگرچہ یہ بحر اتنی پسند نہیں.
باقی استاد محترم ہی بہتر بتا سکتے ہیں.

دعاگو،
راحل.
بہت بہت شکریہ۔ بہت بہت نوازش۔
شعر کے بارے میں آپ کی بات درست ہے شاید جو بات میں کہنا چاہتا تھا شعر سے وہ بیان نہیں ہو رہی۔
کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ باقی اعضا تو وقت کے ساتھ کمزور ہوئے مگر تیری یاد میں کوئی کمی نہیں آئی۔
بدلنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
مطلع اسی بحر میں ہوا تو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔
مقطع بدل دیا ہے یہ بھی دیکھ لیں
اک زمانہ تھا کہ دیوانہ تھا عمران
اب اسے تیری ضرورت نہیں ہوتی

پھر سے بہت بہت شکریہ
جزاک اللہ!
 
آخری تدوین:
Top