برائے اصلاح

برائے اصلاح، بقلم خود

ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے
بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون کرتا ہے

بلا مقصد یہاں اب تو نہیں ملتی محبت بھی
کہ یک طرفہ محبت میں گزارا کون کرتا ہے

بڑے عامل ہیں جو لائیں مرا محبوب قدموں میں
نظر فرقت کے ماروں کی اتارا کون کرتا ہے

کہ اس شیریں سے لہجے کو محبت ہم نہیں جانیں
بنا حاجت کسی کو یوں پکارا کون کرتا ہے

کہ مقتل میں نہیں مجھ کو ستم گر سے ذرا مطلب
مجھے تو دیکھنا یہ ہے اشارہ کون کرتا ہے

توقع سعد دنیا سے نہیں مجھ کو کہ بس جس میں
بنا مشکل خدا کو اب پکارا کون کرتا ہے
 
ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے
بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون کرتا ہے
"کنارہ کرنا" اور "سہارا کرنا"... محاورے کی رو سے دونوں ہی غلط ہیں.

بلا مقصد یہاں اب تو نہیں ملتی محبت بھی
کہ یک طرفہ محبت میں گزارا کون کرتا ہے
ٹھیک ہے.

بڑے عامل ہیں جو لائیں مرا محبوب قدموں میں
نظر فرقت کے ماروں کی اتارا کون کرتا ہے
کیا کہنا چاہتے ہیں، مفہوم واضح نہیں ہے.

کہ اس شیریں سے لہجے کو محبت ہم نہیں جانیں
بنا حاجت کسی کو یوں پکارا کون کرتا ہے

کہ مقتل میں نہیں مجھ کو ستم گر سے ذرا مطلب
مجھے تو دیکھنا یہ ہے اشارہ کون کرتا ہے
پہلا مصرع "کہ" سے شروع کرنا اچھا نہیں. یوں کیا جاسکتا ہے
ترے اس لہجۂ شیریں کو الفت کیسے مانیں ہم
بنا مطلب کسی کو یوں ....

دوسرا شعر واضح نہیں، کیا کہنا چاہ رہے ہیں.

توقع سعد دنیا سے نہیں مجھ کو کہ بس جس میں
بنا مشکل خدا کو اب پکارا کون کرتا
توقع ایسی دنیا سے رکھوں میں سعد کیا، جس میں
بنا مشکل ....
 
"کنارہ کرنا" اور "سہارا کرنا"... محاورے کی رو سے دونوں ہی غلط ہیں".

تو ہٹا دیا جائے؟




کیاکہنا چاہتے ہیں، مفہوم واضح نہیں ہے."

محبوب کو قدموں میں گرانے کا علم تو بہت کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر جو اس غم میں سب اجاڑ چکا ہے اس کا علاج کون کرتا ہے

پہلا مصرع "کہ" سے شروع کرنا اچھا نہیں. یوں کیا جاسکتا ہے ترے اس لہجۂ شیریں کو الفت کیسے مانیں ہم
بنا مطلب کسی کو یوں ....

جی ٹھیک ہے۔

دوسرا شعر واضح نہیں، کیا کہنا چاہ رہے ہیں.
مجھے قتل کرنے والا کون ہے یہ میرے لئے بے معنی ہے۔ مجھے غرض اس سے ہے جو میرے قتل کر دیئے جانے کا حکم دیتا ہے یا مجھ زے چھپ کر قاتل کو اشارہ دیتا ہے کہ قتل کر دیا جائے
 
آخری تدوین:
"کنارہ کرنا" اور "سہارا کرنا"... محاورے کی رو سے دونوں ہی غلط ہیں.

ویسے سر کنارہ کرنا تو درست نہیں؟ دوست ایک دوسرے سے ناراضگی میں کنارہ کرتے ہیں۔ عام فہم زبان میں بھی کسی کے نظر بچانے کو کنارہ کرنا کہتے ہیں۔

تو اگر شعر یوں کر دیں

بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون بنتا ہے
ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے
 
ویسے سر کنارہ کرنا تو درست نہیں؟ دوست ایک دوسرے سے ناراضگی میں کنارہ کرتے ہیں۔ عام فہم زبان میں بھی کسی کے نظر بچانے کو کنارہ کرنا کہتے ہیں۔

تو اگر شعر یوں کر دیں

بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون بنتا ہے
ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے
اس کنارا کشی کا لہروں کے کنارے پر آنے سے کوئی تعلق نہیں :)

شعر کی جو ہیئت آپ نے لکھی ہے اس سے ایک تو غزل کی زمین بدل جائے گی، دوسرے یہ کہ کرتا اور بنتا درست قوافی نہیں.
 
اس کنارا کشی کا لہروں کے کنارے پر آنے سے کوئی تعلق نہیں :)

شعر کی جو ہیئت آپ نے لکھی ہے اس سے ایک تو غزل کی زمین بدل جائے گی، دوسرے یہ کہ کرتا اور بنتا درست قوافی نہیں.

ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے۔

اس میں لہروں کا کنارے پر آنا مقصد نہیں ہے۔ اس سے مراد ہے کے ابھی زندگی کا سفر پر سکون ہے خاموش لہروں کی طرح، ایسے حالات میں اگر زندگی ہو تو ظاہر ہے کوئی بھی آپ سے کنارہ کشی نہیں کرتا

بھنور میں دیکھنا تم کہ سہارا کون کرتا ہے

تو بہتر یہ ہے کہ اگر اپنے دوستوں کی پہچان کرنا چاہتے ہو تو اس وقت جب زندگی کی کشتی بھنور میں الجھی ہو تو جو اس کشتی کی سلامتی کہ انتظامات کرے وہ دوست ورنہ وہ کنارہ کش ہو جائے گا۔

امید ہے کہ اب شعر آپ کو صحیح لگے
 
بھائی جو محاورہ ہے کنارا کرنا، اس کا مطلب لاتعلقی اختیار کرنا ہوتا ہے، اس کا لہروں سے کوئی علاقہ نہیں ... جو مطلب آپ کشید کرنا چاہ رہے ہیں، الفاظ اس سے مطابقت نہیں رکھتے.

جہاں تک دوسرے مصرعے کا تعلق ہے تو اس میں اب وہی غلطی ہے، سہارا کیا نہیں لیا یا دیا جاتا ہے.
 
بھائی جو محاورہ ہے کنارا کرنا، اس کا مطلب لاتعلقی اختیار کرنا ہوتا ہے، اس کا لہروں سے کوئی علاقہ نہیں ... جو مطلب آپ کشید کرنا چاہ رہے ہیں، الفاظ اس سے مطابقت نہیں رکھتے.

جہاں تک دوسرے مصرعے کا تعلق ہے تو اس میں اب وہی غلطی ہے، سہارا کیا نہیں لیا یا دیا جاتا ہے.

معذرت چاہتا ہوں سر۔ میں نے جو مفہوم بیان کیا مجھے تو وہ سمجھ آ رہا ہے۔ آپ تجربہ کار ہیں آپ کا مشورہ بہتر ہی ہوگا۔

مزید یہ کہ اکثر شعر کا مطلب من و ان نہیں لیا جاتا۔ جیسے اقبال صاحب لکھتے ہیں کہ

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

پہاڑوں کی چٹانوں سے مراد ہے اونچائی پر رہنا۔ ایسے ہی خاموش لہروں سے مراد میں نے ایک پر سکون حالت سے لی ہے اور بھنور کو زندگی کی طلاطم خیز حالت ہے۔

مگر ہو سکتا ہے کہ شاید قاری یہ بات اخز نہ کر سکتا ہو جیسے آپ کا اندیشہ ہے۔
 
نہیں بھائی، گستاخی والی کوئی بات نہیں
مگر آپ اگر اپنے مصرعے کو بغیر تشبیہ، استعارہ یا علامت کی رعایت رکھے اقبال کے شعر سے ملائیں گے تو بندہ آگے سے کیا کہہ سکتا ہے!

حضرت اقبال نے اپنے شعر میں واضح طور پر صنعت تشبیہ کا استعمال کیا ہے ... "تو شاہیں ہے" کے الفاظ اس پر دال ہیں ...
آپ بتائیں کہ آپ کے مصرعے میں کون سے ایسے الفاظ ہیں جن سے اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوتا ہو جو آپ کشید کرنا چاہ رہے ہیں؟
ایسی صورتحال کو عام طور پر "معنی در بطنِ شاعر" سے تعبیر کیا جاتا ہے ... یعنی ایسا شعر جس کے معنی صرف شاعر کو ہی معلوم ہوں.
 
نہیں بھائی، گستاخی والی کوئی بات نہیں
مگر آپ اگر اپنے مصرعے کو بغیر تشبیہ، استعارہ یا علامت کی رعایت رکھے اقبال کے شعر سے ملائیں گے تو بندہ آگے سے کیا کہہ سکتا ہے!

حضرت اقبال نے اپنے شعر میں واضح طور پر صنعت تشبیہ کا استعمال کیا ہے ... "تو شاہیں ہے" کے الفاظ اس پر دال ہیں ...
آپ بتائیں کہ آپ کے مصرعے میں کون سے ایسے الفاظ ہیں جن سے اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوتا ہو جو آپ کشید کرنا چاہ رہے ہیں؟
ایسی صورتحال کو عام طور پر "معنی در بطنِ شاعر" سے تعبیر کیا جاتا ہے ... یعنی ایسا شعر جس کے معنی صرف شاعر کو ہی معلوم ہوں.

جی سمجھ گیا آپ کیا عرض کر رہے ہیں۔ میں دوبارا کوشش کرتا ہوں۔ دراصل میں اس خیال میں تھا کے کنارا کون کرتا ہے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک انسان دوسرے انسان سے کنارہ کر رہا ہے اور اس حال میں لازم آجاتا کہ کہ لہروں کی تشبیہ کی جائے اور بھنور کی بھی۔

آپ کے مشاہدے کا شکریہ۔ جزاک اللّہ
 
Top