برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
الف عین
محمد احسن سمیع: راحل
سید عاطف علی
یاسر شاہ

السلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اساتذہ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے___

خواہشوں کے صحرا میں جستجو بھٹکتی ہے
اشک بار آنکھوں سے آرزو ٹپکتی ہے

میری چشمِ گریہ سے آنسوؤں کی صورت میں
درد و غم ٹپکتا ہے بے بسی چھلکتی ہے

گرچہ نا مرادی ہے، پھر بھی خانۂ دل میں
کوئی شمع امید دھیرے دھیرے جلتی ہے

نغمہ کس نے چھیڑا ہے بے خودی کے عالم میں
رقص میں ستارے ہیں چاندنی تھرکتی ہے

اک دبی تمنّا نے ایسے سر اٹھایا ہے
شمع آخری دم میں جس طرح بھڑکتی ہے

زندگی سحؔر اپنی ایک ایسا ساغر ہے
سانس جس میں ہر لحظہ ڈوب کر اُبھرتی ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
وعلیکم السلام

اچھی غزل ہے- کچھ کمزور مقامات کی نشاندہی کرتا ہوں :


گرچہ نا مرادی ہے، پھر بھی خانۂ دل میں
کوئی شمع امید دھیرے دھیرے جلتی ہے

یہاں "جلتی " قافیہ ٹھیک نہیں لگتا ،ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے :


نامراد اندھیرا ہے، پھر بھی خانۂ دل میں
اک کرن امیدوں کی اب تلک چمکتی ہے


نغمہ کس نے چھیڑا ہے بے خودی کے عالم میں
رقص میں ستارے ہیں چاندنی تھرکتی ہے

غزل چھیڑنا ،راگ چھیڑنا یا ساز چھیڑنا وغیرہ تو عام ہے مگر نغمہ چھیڑنا فصیح نہیں -نغمہ کی جگہ راگ یا ساز کر دیں یا پھر "نغمہ کون گاتا ہے "وغیرہ
شعر خوب ہے -

زندگی سحؔر اپنی ایک ایسا ساغر ہے
سانس جس میں ہر لحظہ ڈوب کر اُبھرتی ہے

یہاں بھی ابھرتی قافیہ ٹھیک نہیں - دوبارہ سوچیں -
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
الف عین
یاسر شاہ
محمد احسن سمیع:راحل

سر نظر ثانی کی درخواست ہے۔۔۔



خواہشوں کے صحرا میں جستجو بھٹکتی ہے
اشک بار آنکھوں سے آرزو ٹپکتی ہے

میری چشمِ گریہ سے آنسوؤں کی صورت میں
درد و غم ٹپکتا ہے بے بسی چھلکتی ہے

گرچہ نا مرادی ہے، پھر بھی خانۂ دل میں
اِک کرن اُمیدی کی اب تلک چمکتی ہے

ساز کس نے چھیڑا ہے بے خودی کے عالم میں
رقص میں ستارے ہیں چاندنی تھرکتی ہے

اک دبی تمنّا نے ایسے سر اٹھایا ہے
شمع آخری دم میں جس طرح بھڑکتی ہے

زندگی سحؔر بالکل شام کے مماثل ہے
بعد جو نکلنے کے آخرش ڈھلکتی ہے
 
آخری تدوین:
زیادہ تر اشعار مجھے اب تو ٹھیک لگ رہے ہیں، ایک دو نکات ذہن میں آئے

اک دبی تمنّا نے ایسے سر اٹھایا ہے
شمع آخری دم میں جس طرح بھڑکتی ہے
پہلے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب بدل دیں تو تقابل ردیفین دور ہو جائے گا، مثلا
ایسے سر اٹھایا ہے، اک دبی تمنا نے ... یا...
اک دبی تمنا نے اس طرح اٹھایا سر

ویسے دبی ہوئی/سی تمنا کہا جائے تو زیادہ قرین محاورہ ہوگا
دوسرے مصرعے میں دمِ آخر لا سکیں تو مصرع اور جاندار ہو جائے گا.

زندگی سحؔر بالکل شام کے مماثل ہے
بعد جو نکلنے کے آخرش ڈھلکتی ہے
شام ڈھلتی ہے، شام کے ڈھلکنا کہنا درست نہیں.
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
الف عین
محمد احسن سمیع:راحل
یاسر شاہ

آداب۔۔۔۔۔
سر ایک بار پھر آپ کی آراء سے مستفید ہونے کی متمنی ہوں۔

خواہشوں کے صحرا میں جستجو بھٹکتی ہے
اشک بار آنکھوں سے آرزو ٹپکتی ہے

میری چشمِ گریہ سے آنسوؤں کی صورت میں
درد و غم ٹپکتا ہے بے بسی چھلکتی ہے

گرچہ نا مرادی ہے، پھر بھی خانۂ دل میں
آس کی کرن کوئی اب تلک چمکتی ہے

ساز کس نے چھیڑا ہے بے خودی کے عالم میں
رقص میں ستارے ہیں چاندنی تھرکتی ہے

اک دبی سی حسرت نے ایسے سر اٹھایا ہے
شمع آخری ساعت جس طرح بھڑکتی ہے

زندگی سحؔر جیسے اوڑھنی ہو ریشم کی
کتنا بھی سنبھالو تم سر سے یہ ڈھلکتی ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
اک دبی سی حسرت نے ایسے سر اٹھایا ہے
شمع آخری ساعت جس طرح بھڑکتی ہے
"آخری ساعت "کی جگہ یوں کر دیں
شمع بجھتے بجھتے بھی جس طرح بھڑکتی ہے

مقطع اب بھی تسلی بخش نہیں گو "اوڑھنی ہو ریشم کی"پرکشش ترکیب ہے مگر اس کا جوڑ زندگی سے نہیں جچتا۔
 
Top