برائے اصلاح

چمک رہا ہے ستارا چراغ جلنے دو
ابھی ہے تیرگی یارا چراغ جلنے دو

مرا وجود مٹا دے نہ تیرگی آ کر
سنو ہواؤ! خدارا چراغ جلنے دو

سفر طویل ہےزادِ سفر نہیں کچھ بھی
فقط یہی ہے سہارا چراغ جلنے دو

حسین چہرہ ہے پیشِ نظر مرے تم بھی
جو چاہتے ہو نظارا چراغ جلنے دو

تمام عمر بھٹکتا رہا اندھیروں میں
میں ہوں نصیب کا مارا چراغ جلنے دو

سکون دل کو شعاؤں سے ان کی ملتا ہے
ہے عکس ان میں تمہارا چراغ جلنے دو

ہے اعتراض اگر سعد روشنی پہ تمہیں
بجھاؤ اپنا, ہمارا چراغ جلنے دو

ارشد سعد ردولوی​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس غزل کے قوافی ہی غلط ہو گئے ہیں۔ کوشش کریں کہ خدارا، سہارا یعنی 'ارا' والے قوافی الگ کر دیں، اور اندھیرا، سویرا یعنی 'یرا' والے اشعار الگ۔
 
اب دیکھیں محترم میں نے ترمیم کیا ہے
اصل مراسلے میں ترمیم کرنے سے گریز کیا کریں ... بلکہ اصلاح کے بعد ترمیم شدہ اشعار نئے مراسلے میں لکھا کریں تا کہ مکمل ریکارڈ رہے ... اس طرح دیگر لوگوں کے لیے بھی اصلاحی نکات سمجھنے میں آسانی رہتی ہے.
 
اصل مراسلے میں ترمیم کرنے سے گریز کیا کریں ... بلکہ اصلاح کے بعد ترمیم شدہ اشعار نئے مراسلے میں لکھا کریں تا کہ مکمل ریکارڈ رہے ... اس طرح دیگر لوگوں کے لیے بھی اصلاحی نکات سمجھنے میں آسانی رہتی ہے.
جی آئندہ اس بات بھی خیال رکھیں گے
 

الف عین

لائبریرین
چمک رہا ہے ستارا چراغ جلنے دو
ابھی ہے تیرگی یارا چراغ جلنے دو
... یارا، فلمی گانوں کا انداز ہے، اگر قبول کر بھی لیا جائے تو 'چمک رہا ہے ستارا' کچھ غلط ہو جاتا ہے کہ پھر تو مکمل تیرگی نہیں ہو گی نا!

مرا وجود مٹا دے نہ تیرگی آ کر
سنو ہواؤ! خدارا چراغ جلنے دو
... درست

سفر طویل ہےزادِ سفر نہیں کچھ بھی
فقط یہی ہے سہارا چراغ جلنے دو
... تخاطب کس سے ہے، یہ واضح نہیں ہو رہا

حسین چہرہ ہے پیشِ نظر مرے تم بھی
جو چاہتے ہو نظارا چراغ جلنے دو
... 'مرے' کے بعد کوما بہت ضروری ہے ورنہ بات مہمل لگتی ہے، درست ہے ورنہ شعر

تمام عمر بھٹکتا رہا اندھیروں میں
میں ہوں نصیب کا مارا چراغ جلنے دو
... ردیف مہمل ہو گئی ہے

سکون دل کو شعاؤں سے ان کی ملتا ہے
ہے عکس ان میں تمہارا چراغ جلنے دو
.. 'ان' کا اشارہ چراغ کی طرف اگر ہو تو واحد ہے چراع تو، 'اس' کا محل ہے۔ ایک بات املا کے بارے میں بھی، شعاع کی جمع شعاعوں ہونی چاہیے، شعاؤں غلط ہے

ہے اعتراض اگر سعد روشنی پہ تمہیں
بجھاؤ اپنا, ہمارا چراغ جلنے دو
.. اگر روشنی پر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اپنا چراغ کیوں جلائے گا؟
 
چمک رہا ہے ستارا چراغ جلنے دو
ابھی ہے تیرگی یارا چراغ جلنے دو
... یارا، فلمی گانوں کا انداز ہے، اگر قبول کر بھی لیا جائے تو 'چمک رہا ہے ستارا' کچھ غلط ہو جاتا ہے کہ پھر تو مکمل تیرگی نہیں ہو گی نا!

مرا وجود مٹا دے نہ تیرگی آ کر
سنو ہواؤ! خدارا چراغ جلنے دو
... درست

سفر طویل ہےزادِ سفر نہیں کچھ بھی
فقط یہی ہے سہارا چراغ جلنے دو
... تخاطب کس سے ہے، یہ واضح نہیں ہو رہا

حسین چہرہ ہے پیشِ نظر مرے تم بھی
جو چاہتے ہو نظارا چراغ جلنے دو
... 'مرے' کے بعد کوما بہت ضروری ہے ورنہ بات مہمل لگتی ہے، درست ہے ورنہ شعر

تمام عمر بھٹکتا رہا اندھیروں میں
میں ہوں نصیب کا مارا چراغ جلنے دو
... ردیف مہمل ہو گئی ہے

سکون دل کو شعاؤں سے ان کی ملتا ہے
ہے عکس ان میں تمہارا چراغ جلنے دو
.. 'ان' کا اشارہ چراغ کی طرف اگر ہو تو واحد ہے چراع تو، 'اس' کا محل ہے۔ ایک بات املا کے بارے میں بھی، شعاع کی جمع شعاعوں ہونی چاہیے، شعاؤں غلط ہے

ہے اعتراض اگر سعد روشنی پہ تمہیں
بجھاؤ اپنا, ہمارا چراغ جلنے دو
.. اگر روشنی پر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اپنا چراغ کیوں جلائے گا؟
آپ کا بہترین تبصرہ جو میری کئی غلطیوں کے میرے سامنے لا کر رکھ رہا ہے امید ہے اسی طرح اور بھی سیکھنے کو ملے گا
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
Top