ارشد سعد ردولوی
محفلین
گر فسانہ وزیر پر لکھنا
تو گلوں کے اسیر پر لکھنا
جب کہانی فقیر پر لکھنا
تو ذرا اس حقیر پر لکھنا
جس کی ارض سما ہیں مٹھی میں
بس اسی دست گیر پر لکھنا
بس میں انسان کے نہیں کچھ بھی
جو ہے قادر قدیر پر لکھنا
عشق کی داستاں جو لکھنی ہو
شیریں,لیلی پہ ہیر پر لکھنا
کھیلتے ہیں جو خون کی ہولی
ان کے مردہ ضمیر پر لکھنا
جس نے دنیا بنائی ہے ساری
بس اسی بے نظیر پر لکھنا
یادِ یوسف کا بس تقاضہ ہے
ان کے والد کے نیر پر لکھنا
جو مٹائی گئی ہے ہاتھوں سے
تم کبھی اس لکیر پر لکھنا
روٹھ جاتی ہے میری فاقہ کشی
جب بھی چاہوں امیر پر لکھنا
غم کے ماروں کی زندگی کیا ہے
سعدؔ غالبؔ پہ میرؔ پر لکھنا
ارشد سعؔد ردولوی
الف عین
یاسر شاہ
تو گلوں کے اسیر پر لکھنا
جب کہانی فقیر پر لکھنا
تو ذرا اس حقیر پر لکھنا
جس کی ارض سما ہیں مٹھی میں
بس اسی دست گیر پر لکھنا
بس میں انسان کے نہیں کچھ بھی
جو ہے قادر قدیر پر لکھنا
عشق کی داستاں جو لکھنی ہو
شیریں,لیلی پہ ہیر پر لکھنا
کھیلتے ہیں جو خون کی ہولی
ان کے مردہ ضمیر پر لکھنا
جس نے دنیا بنائی ہے ساری
بس اسی بے نظیر پر لکھنا
یادِ یوسف کا بس تقاضہ ہے
ان کے والد کے نیر پر لکھنا
جو مٹائی گئی ہے ہاتھوں سے
تم کبھی اس لکیر پر لکھنا
روٹھ جاتی ہے میری فاقہ کشی
جب بھی چاہوں امیر پر لکھنا
غم کے ماروں کی زندگی کیا ہے
سعدؔ غالبؔ پہ میرؔ پر لکھنا
ارشد سعؔد ردولوی
الف عین
یاسر شاہ