آئی کے عمران
محفلین
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے
راہِ یزید اپنا تو پر ہم نے
رسمِ شبیری دہرانی ہے
ایسے مرو کہ امر ہو جاؤ تم
خوف اجل کیا ایک دن آنی ہے
ڈر پھولوں میں ہے پھر کیوں مالی کا
کام ہی جب اس کا نگرانی ہے
اس کو عبث تم کھونا مت یارو
در یتیم یہ دور جوانی ہے
تشنہ لبی جھیلی ہے کچھ اتنی
قطرہ ہمیں ساگر کا پانی ہے
اس کی جفائیں دیکھی ہیں جب سے
تب سے ان آنکھوں میں حیرانی ہے
راہ دکھائی جس نے صحرا کی
ہجرزدہ دل کی ویرانی ہے
طرفہ وصالِ یار ہے اے صاحب
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے
راہِ یزید اپنا تو پر ہم نے
رسمِ شبیری دہرانی ہے
ایسے مرو کہ امر ہو جاؤ تم
خوف اجل کیا ایک دن آنی ہے
ڈر پھولوں میں ہے پھر کیوں مالی کا
کام ہی جب اس کا نگرانی ہے
اس کو عبث تم کھونا مت یارو
در یتیم یہ دور جوانی ہے
تشنہ لبی جھیلی ہے کچھ اتنی
قطرہ ہمیں ساگر کا پانی ہے
اس کی جفائیں دیکھی ہیں جب سے
تب سے ان آنکھوں میں حیرانی ہے
راہ دکھائی جس نے صحرا کی
ہجرزدہ دل کی ویرانی ہے
طرفہ وصالِ یار ہے اے صاحب
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے
آخری تدوین: