برائے اصلاح

ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے

راہِ یزید اپنا تو پر ہم نے
رسمِ شبیری دہرانی ہے

ایسے مرو کہ امر ہو جاؤ تم
خوف اجل کیا ایک دن آنی ہے

ڈر پھولوں میں ہے پھر کیوں مالی کا
کام ہی جب اس کا نگرانی ہے

اس کو عبث تم کھونا مت یارو
در یتیم یہ دور جوانی ہے

تشنہ لبی جھیلی ہے کچھ اتنی
قطرہ ہمیں ساگر کا پانی ہے

اس کی جفائیں دیکھی ہیں جب سے
تب سے ان آنکھوں میں حیرانی ہے

راہ دکھائی جس نے صحرا کی
ہجرزدہ دل کی ویرانی ہے

طرفہ وصالِ یار ہے اے صاحب
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
جناب آئی کے صاحب - بڑی نوازش آپ نے یاد کیا - مگر بہتر ہے کہ آپ الف عین اور دیگر اساتذہ کی رائے کا انتظار کر لیں -
میرا کہا اس بزم میں یوں بھی معتبر نہیں ہوتا تو میں اب اس سے گریز کرتا ہوں -
شکریہ-
 
جناب آئی کے صاحب - بڑی نوازش آپ نے یاد کیا
جنابِ ارشد رشید صاحب!
آپ اور بعض دیگر اہلِ علم کے دم قدم سے اِس محفل کی جو اہمیت ہے وہ شاید ہی اُردُو کی کسی اور ویب سائیٹ کو نصیب ہو۔اِصلاحِ سخن ہو کہ آزاد اور پابند شاعری کا زُمرہ ، آپ کا فرمایا ہوا ایک ایک لفظ اصلاح کے ضمن اور تبصرے کے ذیل میں ، ایسا وقیع ورفیع ہوتا ہے کہ طلباءِ اُردُو کے لیے درسی کتب ، نصابی شذروں اور تحقیقی مقالوں سے بڑھ بڑھ جاتا ہے ۔ ازراہِ کرم رُشد و ہدایت کے اُس کارِخیر سے ہاتھ مت کھینچیے جس کاکھلا اشارہ ،غیبی دِلاسا اور یقینی سہاراہم لب تشنگانِ علم کو آپ کے نامِ نامی اِسمِ گرامی میں ملتاہے :
ہلچل سی ہورہی ہے میرے دل کے آس پاس
شاید ۔میں۔ آگیا ۔ہوں۔ منزل کے آس پاس​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے
درست
راہِ یزید اپنا تو پر ہم نے
رسمِ شبیری دہرانی ہے
پہلا مصرع سمجھ نہیں سکا
ایسے مرو کہ امر ہو جاؤ تم
خوف اجل کیا ایک دن آنی ہے
درست، دوسرے مصرعے میں "کءا" کے بعد کوما ضرور دو
ڈر پھولوں میں ہے پھر کیوں مالی کا
کام ہی جب اس کا نگرانی ہے
پہلے میں آدھا رکن زائد ہے، صرف مالی تک ہی بحر میں آتا ہے
گل کیوں ڈرتے ہیں پھر مالی سے
یا کچھ اور مصرع کہو۔
مزید یہ کہ مالی کا کام یہ تو نہیں ہوتا، وہ تو اس کی نشو و نما کا ذمہ دار ہے، نگرانی سے عموماً چوکیداری مراد لی جاتی ہے
اس کو عبث تم کھونا مت یارو
در یتیم یہ دور جوانی ہے
ٹھیک
تشنہ لبی جھیلی ہے کچھ اتنی
قطرہ ہمیں ساگر کا پانی ہے
درست، اچھا شعر ہے
اس کی جفائیں دیکھی ہیں جب سے
تب سے ان آنکھوں میں حیرانی ہے

راہ دکھائی جس نے صحرا کی
ہجرزدہ دل کی ویرانی ہے
یہ دونوں بھی درست اور اچھے ہیں
طرفہ وصالِ یار ہے اے صاحب
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے
دوسرا مصرع عجز بیان ہے۔ اگر یہ کہنا ہے کہ "یہ وصال یار ایسا پانی ہے جسے پی کر پیاس اور. مزید، بڑھ جاتی ہے!
 

ارشد رشید

محفلین
جنابِ ارشد رشید صاحب!
آپ اور بعض دیگر اہلِ علم کے دم قدم سے اِس محفل کی جو اہمیت ہے وہ شاید ہی اُردُو کی کسی اور ویب سائیٹ کو نصیب ہو۔اِصلاحِ سخن ہو کہ آزاد اور پابند شاعری کا زُمرہ ، آپ کا فرمایا ہوا ایک ایک لفظ اصلاح کے ضمن اور تبصرے کے ذیل میں ، ایسا وقیع ورفیع ہوتا ہے کہ طلباءِ اُردُو کے لیے درسی کتب ، نصابی شذروں اور تحقیقی مقالوں سے بڑھ بڑھ جاتا ہے ۔ ازراہِ کرم رُشد و ہدایت کے اُس کارِخیر سے ہاتھ مت کھینچیے جس کا اشارہ بلکہ دلاسہ ہمیں آپ کے نامِ نامی اِسمِ گرامی میں ملتاہے ۔
شکیل صاحب یہ آپ کی محبت و عنایت ہے کہ آپ میرے بارے میں اتنے اچھے جذبا ت رکھتے ہیں - دل سے شکر گزار ہوں
مگر بات یہ ہے میرا اصلاح و تنقید کا نصاب کچھ مختلف ہے جس پر میں نے اس سائٹ پہ بہت باتیں سن لیں - میرے نزدیک زبان کا صحیح استعمال جس کو میں حرمتِ لفظی کہتا ہوں وہ بے انتہا اہمیت کی حامل ہے کسی بھی کلام کو معیای بنانے میں - یہاں زیادہ تر لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ اسے ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ کوئئ ایشو ہی نہیں ہے تو پھر کب تک اسکی تبلیغ کرتا پھروں - اپنی عزت اپنے ہاتھ کے مصداق مجھے اب اس سے گریز کر نا چاہیئے-
یہی دیکھیے کہ میں نے جب لکھا کہ میں اب اصلاح نہیں کیا کروں گا تو دو احباب نے اس پر پسندیدہ کا آئی کون بنایا - :) - تو مجھے بھی اب سمجھ جانا چاہیئے نا! :)

میں اپنی بات کی مثال میں اس میسج میں اس غزل سے ہی متعلق ایک کمنٹ دیتا ہوں مگر دیکھ لیجیجیئے وہ کسی کے نزدیک اہمیت ہی نہیں رکھتا - کسی نے اس کی طرف اشارہ تک نہین دیا بلکہ اس پاس کر دیا
شعر ہے
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے
میرے نزدیک زبان و بیان کے اعتبار سے یہ شعر ناقص ہے - تند ہوا میں شمع جلانی ہے ایک تجریدی جملہ ہے اسکو پہلے مصرعے سے ربط میں لانے کے لیئے آپ کو اس کو عام سے خاص کرنا ہوگا - دیکھیئے کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ٹھانی ہے کہ مسلمانوں کو روزہ رکھنا ہے - نہیں نا - آپ کہیں گے میں نے ٹھانی ہے کہ میں بھی ایک روزہ رکھوں گا یعنی آپ نے ایک عمومی بات کو اپنے آپ سے خاص کیا -
یہ شعر ہونا چاہیئے تھا
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں کوئ شمع جلانی ہے یا اب ہمیں بھی ایک شمع جلانی ہے وغیرہ وغیرہ (وزن سے قطع نظر)

میری ایسی باتیں رد کر دی گئی ہیں بلکہ مذاق تک اڑایا گیا ہے - اور سخت سست بھی کہا گیا ہے - ہو سکتا ہے وہ سب احباب ہی صحیح ہو ں اور مجھے واقعی کوئ کیڑا کاٹتا ہو -
یہ بھی ہوسکتا ہے میں ہی صحیح ہوں - مگر پھر دونوں ہی صورتوں میں میرا اب اس فورم سے الگ ہونا ہی بہتر ہے -
بہت شکریہ
 
آخری تدوین:
اس فورم سے الگ ہونا ہی بہتر ہے
نقد وتنقیص،ستائش وصلہ کی پروا کیے بغیر اہلِ علم ، صاحبِ نظر،ذی شعور،دقیقہ رس،نواسنج اور نکتہ داں حضرات کا اِس فورم سے جڑے رہنا بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ ربِ کریم آپ سب کا سایہ طلبا و تلامذہ کے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے ، آمین ثم آمین۔
 
درست

پہلا مصرع سمجھ نہیں سکا

درست، دوسرے مصرعے میں "کءا" کے بعد کوما ضرور دو

پہلے میں آدھا رکن زائد ہے، صرف مالی تک ہی بحر میں آتا ہے
گل کیوں ڈرتے ہیں پھر مالی سے
یا کچھ اور مصرع کہو۔
مزید یہ کہ مالی کا کام یہ تو نہیں ہوتا، وہ تو اس کی نشو و نما کا ذمہ دار ہے، نگرانی سے عموماً چوکیداری مراد لی جاتی ہے

ٹھیک

درست، اچھا شعر ہے

یہ دونوں بھی درست اور اچھے ہیں

دوسرا مصرع عجز بیان ہے۔ اگر یہ کہنا ہے کہ "یہ وصال یار ایسا پانی ہے جسے پی کر پیاس اور. مزید، بڑھ جاتی ہے!
بہت بہت شکریہ سر
بہت نوازش

راہِ یزید اپنا ( مطلب اپنانا) تُو پر ہم نے

یا یوں درست ہو گا

راِہِ یزید پہ چل تُو، پر ہم نے
یا
راہ یزید چنو تم پر ہم نے
رسم ِ شبیری دہرانی ہے

آخری شعر بھی بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہو ں

طرفہ وصال یار ہے اے عمران
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے

کیا عجز بیان یوں دور ہو جائے گا؟
اور بڑھا تا پیاس یہ پانی ہے


دو اشعار اور بھی ہیں ان کو بھی دیکھ لیں۔

اتنی سی ہجرزدوں کی کہانی ہے
سینہ کوبی ہے،نوحہ خوانی ہے

دردِ دل کو ،سنبھال رکھا ہے سو
ایک کرم فرما کی نشانی ہے


ایک بار پھر سے شکریہ
جزاک اللہ
سلامت رہیں
 
آخری تدوین:
شکیل صاحب یہ آپ کی محبت و عنایت ہے کہ آپ میرے بارے میں اتنے اچھے جذبا ت رکھتے ہیں - دل سے شکر گزار ہوں
مگر بات یہ ہے میرا اصلاح و تنقید کا نصاب کچھ مختلف ہے جس پر میں نے اس سائٹ پہ بہت باتیں سن لیں - میرے نزدیک زبان کا صحیح استعمال جس کو میں حرمتِ لفظی کہتا ہوں وہ بے انتہا اہمیت کی حامل ہے کسی بھی کلام کو معیای بنانے میں - یہاں زیادہ تر لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ اسے ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ کوئئ ایشو ہی نہیں ہے تو پھر کب تک اسکی تبلیغ کرتا پھروں - اپنی عزت اپنے ہاتھ کے مصداق مجھے اب اس سے گریز کر نا چاہیئے-
یہی دیکھیے کہ میں نے جب لکھا کہ میں اب اصلاح نہیں کیا کروں گا تو دو احباب نے اس پر پسندیدہ کا آئی کون بنایا - :) - تو مجھے بھی اب سمجھ جانا چاہیئے نا! :)

میں اپنی بات کی مثال میں اس میسج میں اس غزل سے ہی متعلق ایک کمنٹ دیتا ہوں مگر دیکھ لیجیجیئے وہ کسی کے نزدیک اہمیت ہی نہیں رکھتا - کسی نے اس کی طرف اشارہ تک نہین دیا بلکہ اس پاس کر دیا
شعر ہے
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے
میرے نزدیک زبان و بیان کے اعتبار سے یہ شعر ناقص ہے - تند ہوا میں شمع جلانی ہے ایک تجریدی جملہ ہے اسکو پہلے مصرعے سے ربط میں لانے کے لیئے آپ کو اس کو عام سے خاص کرنا ہوگا - دیکھیئے کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ٹھانی ہے کہ مسلمانوں کو روزہ رکھنا ہے - نہیں نا - آپ کہیں گے میں نے ٹھانی ہے کہ میں بھی ایک روزہ رکھوں گا یعنی آپ نے ایک عمومی بات کو اپنے آپ سے خاص کیا -
یہ شعر ہونا چاہیئے تھا
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں کوئ شمع جلانی ہے یا اب ہمیں بھی ایک شمع جلانی ہے وغیرہ وغیرہ (وزن سے قطع نظر)

میری ایسی باتیں رد کر دی گئی ہیں بلکہ مذاق تک اڑایا گیا ہے - اور سخت سست بھی کہا گیا ہے - ہو سکتا ہے وہ سب احباب ہی صحیح ہو ں اور مجھے واقعی کوئ کیڑا کاٹتا ہو -
یہ بھی ہوسکتا ہے میں ہی صحیح ہوں - مگر پھر دونوں ہی صورتوں میں میرا اب اس فورم سے الگ ہونا ہی بہتر ہے -
بہت شکریہ
السلام علیکم سر

میری پچھلی نظم پر جب آپ نے رائے دی تھی تو مجھے اچھا لگا تھا بہت کچھ سیکھنے کو ملا تھا۔اس سے پہلے میرا آپ سے تعارف نہیں تھا نہ ہی پہلے کبھی آپ نے میرے کسی کلام پر رائے دی۔

مجھے آپ کی باتیں اچھی لگیں ۔آپ کے علم سے متاثر ہو کر میں نے آپ کو ٹیگ کیا تھا۔آپ نے جب معذرت کر لی رائے دینے سے تو پھر میں نے پسندیدہ کا آئی کون بنایا۔آپ کو مجبور تو نہیں کیا جا سکتا ناں سر۔

میں یہاں اپنا کلام کچھ نئی باتیں سیکھنے کے لیے لگاتا ہوں ۔کلام کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے اور کچھ سیکھ بھی جاتا ہوں۔جہاں غلطی ہو میں ہر گز بحث نہیں کرتا ۔
میں اپنے کہے کو مستند نہیں سمجھتا اسی لیے برائے اصلاح بھیجتا ہوں۔


میرے کلام پر آپ کو بات کرنے کی کھلی اجازت ہے ۔آپ بےلاگ رائے دیں۔بلکہ میں آپ کا ممنون ہوں ۔

جزاک اللہ
سلامت رہیں۔
 

ارشد رشید

محفلین
شکیل صاحب - آپکی اردو پڑھ کر میں عش عش کر اٹھا - کیا بات ہے جناب -
جی تو پھر ایسا ہے کہ اگر کسی نے مجھ سے رائے مانگی تو ضرور دوں گا -
بڑی نوازش -
 

ارشد رشید

محفلین
السلام علیکم سر

میری پچھلی نظم پر جب آپ نے رائے دی تھی تو مجھے اچھا لگا تھا بہت کچھ سیکھنے کو ملا تھا۔اس سے پہلے میرا آپ سے تعارف نہیں تھا نہ ہی پہلے کبھی آپ نے میرے کسی کلام پر رائے دی۔

مجھے آپ کی باتیں اچھی لگیں ۔آپ کے علم سے متاثر ہو کر میں نے آپ کو ٹیگ کیا تھا۔آپ نے جب معذرت کر لی رائے دینے سے تو پھر میں نے پسندیدہ کا آئی کون بنایا۔آپ کو مجبور تو نہیں کیا جا سکتا ناں سر۔

میں یہاں اپنا کلام کچھ نئی باتیں سیکھنے کے لیے لگاتا ہوں ۔کلام کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے اور کچھ سیکھ بھی جاتا ہوں۔جہاں غلطی ہو میں ہر گز بحث نہیں کرتا ۔
میں اپنے کہے کو مستند نہیں سمجھتا اسی لیے برائے اصلاح بھیجتا ہوں۔


میرے کلام پر آپ کو بات کرنے کی کھلی اجازت ہے ۔آپ بےلاگ رائے دیں۔بلکہ میں آپ کا ممنون ہوں ۔

جزاک اللہ
سلامت رہیں۔
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے
== اس پر میں پہلے ہی رائے دے چکا ہوں آپ اتفاق کرتے ہیں تو اسے بدلیں -

راہِ یزید اپنا تو پر ہم نے
رسمِ شبیری دہرانی ہے
== یہاں تعقید لفظی آگئی کہ الفاظ کی نشست و برخاست بات کو گنجلک کیئے دیتی ہیں - آپ کہنا چاہ رہے ہیں تُو چاہے تو یزید کی راہ اپنا لے پر ہم نے تو رسمِ شبیر دہرانی ہے - خیال اچھا ہے مگر پیش کش صحیح نہیں ہے - آپ نے بعد میں جو اسکے متبادل لکھے ہیں وہ اس سے تو بہتر ہیں مگر بات اچھی طرح ان سے بھی نہیں بنتی-

ایسے مرو کہ امر ہو جاؤ تم
خوف اجل کیا ایک دن آنی ہے
== ایک دن آنی ہے ایک نامکلل جملہ ہے آپ کو کہنا ہے خوفِ اجل کیا وہ تو ایک دن آنئ ہے -
اس کو بہتر کریں

ڈر پھولوں میں ہے پھر کیوں مالی کا
کام ہی جب اس کا نگرانی ہے
الف عین صاحب کے کمنٹ سے میں اتفاق کرتا ہوں

اس کو عبث تم کھونا مت یارو
در یتیم یہ دور جوانی ہے
== عمران صاحب یاد رکھیں کہ ہر کلام کا ایک مزاج ہوتا ہے ایک لسانی فضا ہوتی ہے اس میں اس سے ہٹ کر کوئی لفظ لایا جاے تو وہ کلام کی فصاحت کو گھٹاتا ہے بڑھاتا نہیں - در یتیم کی اصطلاح آپ اردو میں استعمال تو ضرور کر سکتے ہیں یہ اردد میں "در" نہیں آئئ ہے - یہاں اس کا استعمال غیر ضروری ہے اور برا لگ ریا ہے - میرے خیال سے آپ کو اسے بدلنا چاہیئے -

تشنہ لبی جھیلی ہے کچھ اتنی
قطرہ ہمیں ساگر کا پانی ہے
== دوسرے مصرعے میں" قطرہ ہمیں" سے ابہام پیدا ہورہا ہے - کہ ہمارے لیے ساگر کا پانی ایک قطرہ ہے یا ایک قطرہ بھی ساگر کا پانی ہے - اس کو دور کریں قطرہ ہمیں کی جگہ" قطرہ بھی ہم کو" جیسا کچھ لائیں - دوسری بات یہ کہ تشنہ لبی کے ساتھ جھیلنا کی اصطلاح میں نے کبھی نہیں پڑھی - اسکی کوئئ مثال ہے تو ضرور پیش کریں میرے علم میں اضافہ ہوگا- ویسے بھی خالص فارسی (تشنہ لبی) کے ساتھ خالص ہندی (جھیلی) نہیں لکھی جاتی -


راہ دکھائی جس نے صحرا کی
ہجرزدہ دل کی ویرانی ہے

== یہاں ایسا لگتا ہے کہ آپ بات الٹی کہہ گئے ہیں - ہجر زدہ دل کی ویرانی نے صحرا کی راہ دکھائی ہے نہ کہ اسکے برعکس - کیونکہ اس شعر کو پڑھنے سے یہی تاثر ابھر تا ہے - آپ کو کہنا ہے ہجر زدہ دل کی ویرانی نے - راہ دکھائ ہے مجھ کو صحرا کی -

طرفہ وصالِ یار ہے اے صاحب
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے
== یہ میری بھی سمجھ میں نہ آ سکا-

میرے نزدیک اس غزل میں وزن کے بھی مسائل ہیں- آپ نے وزن کا اندادہ کیسے کیا - کیا آُپ موزوں طبع ہیں ؟

اور آخر میں ،میں ہر نئے لکھنے والے کو مشورہ دیتا ہوں کہ بحر ہندی میں ابھی کلام نہ کہیں - بحر ہندی میں نو آموز کہنے والے کو کبھی موزوں طبعی حاصل نہیں ہوتی - اس میں کہنا ایک بہت مشق کے بعد ہی ممکن ہے -
 
ہم آشفتہ سروں نے ٹھانی ہے
تند ہوا میں شمع جلانی ہے
== اس پر میں پہلے ہی رائے دے چکا ہوں آپ اتفاق کرتے ہیں تو اسے بدلیں -

راہِ یزید اپنا تو پر ہم نے
رسمِ شبیری دہرانی ہے
== یہاں تعقید لفظی آگئی کہ الفاظ کی نشست و برخاست بات کو گنجلک کیئے دیتی ہیں - آپ کہنا چاہ رہے ہیں تُو چاہے تو یزید کی راہ اپنا لے پر ہم نے تو رسمِ شبیر دہرانی ہے - خیال اچھا ہے مگر پیش کش صحیح نہیں ہے - آپ نے بعد میں جو اسکے متبادل لکھے ہیں وہ اس سے تو بہتر ہیں مگر بات اچھی طرح ان سے بھی نہیں بنتی-

ایسے مرو کہ امر ہو جاؤ تم
خوف اجل کیا ایک دن آنی ہے
== ایک دن آنی ہے ایک نامکلل جملہ ہے آپ کو کہنا ہے خوفِ اجل کیا وہ تو ایک دن آنئ ہے -
اس کو بہتر کریں

ڈر پھولوں میں ہے پھر کیوں مالی کا
کام ہی جب اس کا نگرانی ہے
الف عین صاحب کے کمنٹ سے میں اتفاق کرتا ہوں

اس کو عبث تم کھونا مت یارو
در یتیم یہ دور جوانی ہے
== عمران صاحب یاد رکھیں کہ ہر کلام کا ایک مزاج ہوتا ہے ایک لسانی فضا ہوتی ہے اس میں اس سے ہٹ کر کوئی لفظ لایا جاے تو وہ کلام کی فصاحت کو گھٹاتا ہے بڑھاتا نہیں - در یتیم کی اصطلاح آپ اردو میں استعمال تو ضرور کر سکتے ہیں یہ اردد میں "در" نہیں آئئ ہے - یہاں اس کا استعمال غیر ضروری ہے اور برا لگ ریا ہے - میرے خیال سے آپ کو اسے بدلنا چاہیئے -

تشنہ لبی جھیلی ہے کچھ اتنی
قطرہ ہمیں ساگر کا پانی ہے
== دوسرے مصرعے میں" قطرہ ہمیں" سے ابہام پیدا ہورہا ہے - کہ ہمارے لیے ساگر کا پانی ایک قطرہ ہے یا ایک قطرہ بھی ساگر کا پانی ہے - اس کو دور کریں قطرہ ہمیں کی جگہ" قطرہ بھی ہم کو" جیسا کچھ لائیں - دوسری بات یہ کہ تشنہ لبی کے ساتھ جھیلنا کی اصطلاح میں نے کبھی نہیں پڑھی - اسکی کوئئ مثال ہے تو ضرور پیش کریں میرے علم میں اضافہ ہوگا- ویسے بھی خالص فارسی (تشنہ لبی) کے ساتھ خالص ہندی (جھیلی) نہیں لکھی جاتی -


راہ دکھائی جس نے صحرا کی
ہجرزدہ دل کی ویرانی ہے

== یہاں ایسا لگتا ہے کہ آپ بات الٹی کہہ گئے ہیں - ہجر زدہ دل کی ویرانی نے صحرا کی راہ دکھائی ہے نہ کہ اسکے برعکس - کیونکہ اس شعر کو پڑھنے سے یہی تاثر ابھر تا ہے - آپ کو کہنا ہے ہجر زدہ دل کی ویرانی نے - راہ دکھائ ہے مجھ کو صحرا کی -

طرفہ وصالِ یار ہے اے صاحب
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے
== یہ میری بھی سمجھ میں نہ آ سکا-

میرے نزدیک اس غزل میں وزن کے بھی مسائل ہیں- آپ نے وزن کا اندادہ کیسے کیا - کیا آُپ موزوں طبع ہیں ؟

اور آخر میں ،میں ہر نئے لکھنے والے کو مشورہ دیتا ہوں کہ بحر ہندی میں ابھی کلام نہ کہیں - بحر ہندی میں نو آموز کہنے والے کو کبھی موزوں طبعی حاصل نہیں ہوتی - اس میں کہنا ایک بہت مشق کے بعد ہی ممکن ہے -
بہت بہت شکریہ سر
بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
بہت نوازش
جزاک اللہ
 
اگر کسی نے مجھ سے رائے مانگی تو ضرور دوں گا -
شکریہ محترم !
رب کریم جزائے خیر دے ،آپ اور تمام اہلِ دانش کے علم میں برکت دے اور اِ سے لب تشنگانِ علم کی سیرابی کا ذریعہ اور جویائے حق کی منزلوں کا نشاں بنائے ،آمین ثم آمین۔
 
آخری تدوین:
بہت بہت شکریہ سر
بہت نوازش

راہِ یزید اپنا ( مطلب اپنانا) تُو پر ہم نے

یا یوں درست ہو گا

راِہِ یزید پہ چل تُو، پر ہم نے
یا
راہ یزید چنو تم پر ہم نے
رسم ِ شبیری دہرانی ہے

آخری شعر بھی بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہو ں

طرفہ وصال یار ہے اے عمران
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے

کیا عجز بیان یوں دور ہو جائے گا؟
اور بڑھا تا پیاس یہ پانی ہے


دو اشعار اور بھی ہیں ان کو بھی دیکھ لیں۔

اتنی سی ہجرزدوں کی کہانی ہے
سینہ کوبی ہے،نوحہ خوانی ہے

دردِ دل کو ،سنبھال رکھا ہے سو
ایک کرم فرما کی نشانی ہے


ایک بار پھر سے شکریہ
جزاک اللہ
سلامت رہیں
الف عین
 
عمران صاحب اپنی غزل کی اس صورت پر بھی غورکیجیے گا:

ہم دیوانوں نے ٹھانی ہے
شمع نئی اور جلانی ہے
راہ یزیدکی چھوڑ کے بس اب
رسمِ شبیری دہرانی ہے
مرنا ہے وہی جو کردے امر
یہ دنیا آنی جانی ہے
ڈر کانٹوں سے کیا مالی کو
جب دیتا سب کو پانی ہے۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت بہت شکریہ سر
بہت نوازش

راہِ یزید اپنا ( مطلب اپنانا) تُو پر ہم نے

یا یوں درست ہو گا

راِہِ یزید پہ چل تُو، پر ہم نے
یا
راہ یزید چنو تم پر ہم نے
رسم ِ شبیری دہرانی ہے
اوہو، پنجابی محاورہ استعمال کیا تھا! اس لئے سمجھ نہیں سکا، درست اردو ہوتی ہے کہ "ہم کو رسم شبیری دہرانی ہے"
پر کو بھی بمعنی لیکن سمجھنے میں مشکل ہوئی، لیکن یہ شعری زبان نہیں، بول چال میں لوگ بولتے ہیں( میں کم از کم بولنے میں بھی استعمال نہیں کرتا )۔ عجز بیان ہے اس شعر میں
آخری شعر بھی بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہو ں

طرفہ وصال یار ہے اے عمران
پیاس بڑھاتا اور یہ پانی ہے
کیا عجز بیان یوں دور ہو جائے گا؟
اور بڑھا تا پیاس یہ پانی ہے
اب بھی عجز بیان ہے
دو اشعار اور بھی ہیں ان کو بھی دیکھ لیں۔

اتنی سی ہجرزدوں کی کہانی ہے
سینہ کوبی ہے،نوحہ خوانی ہے
یہ وزن میں نہیں، نوحہ خوانی دوسری ہی چیز ہے، یہاں نوحہ گری کا محل ہے۔ نوحہ خوانی میں کسی اور کا لکھا ہوا نوحہ یا مرثیہ آپ پڑھتے ہیں، آپ کی اپنی جذباتیت سے اس کا تعلق نہیں بنتا۔ اگر درست مان بھی لیا جائے تب بھی یوں وزن میں درست ہو گا
بس یہ ہجر زدوں کی کہانی ہے
سینہ کوبی ہے یا نوحہ خوانی ہے
دردِ دل کو ،سنبھال رکھا ہے سو
ایک کرم فرما کی نشانی ہے
یہ بات الٹی ہو گئی! کہنا یہ تھا کہ درد دل کو اس لئے( سو) سنبھال کر رکھا ہے کہ یہ کرم فرما کی نشانی ہے، ویسے خیال اچھا ہے، بیان الٹا ہو گیا، "سو" کی نشست کی وجہ سے ۔ ویسے "سو" لفظ ہی بہت رواں نہیں لگتا مجھے!
بس یوں سنبھال رکھاہے درد دل
سے شاید بات کچھ بن جائے، کیا خیال ہے ارشد رشید؟
مطلع میں میَں نے تھوڑی بے ربطی ضرور محسوس کی، لیکن مطلع میں کچھ بے ربطی یا دو لختی میں معاف کر دیتا ہوں۔
ہجر زدہ دل کی ویرانی والے شعر میں بھی میں نے وہی مراد لیا جو عمران کہنا چاہتے ہیں، اس لئے قبول کر لیا۔
در یتیم کا استعمال کچھ عجیب لگا، اس لئے اسے صرف "ٹھیک" کہا، یعنی یوں بھی چل سکتا ہے شعر!
ارشد رشید ماشاء اللہ بہت باریک نظر سے دیکھتے ہیں۔
عمران صاحب اپنی غزل کی اس صورت پر بھی غورکیجیے گا:

ہم دیوانوں نے ٹھانی ہے
شمع نئی اور جلانی ہے
راہ یزیدکی چھوڑ کے بس اب
رسمِ شبیری دہرانی ہے
مرنا ہے وہی جو کردے امر
یہ دنیا آنی جانی ہے
ڈر کانٹوں سے کیا مالی کو
جب دیتا سب کو پانی ہے۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
اس میں وزن کے مسائل لگ رہے ہیں شکیل میاں!
 

ارشد رشید

محفلین
مطلع میں کچھ بے ربطی یا دو لختی میں معاف کر دیتا ہوں۔
سر یہاں میں آپ سے مؤدبانہ اختلاف کروں گا - مطلع غزل کا سب سے مشکل اور سب سے اہم شعر ہوتا ہے - وہی بے ربط یا دو لخت ہو تو آدمی آگے کیا پڑھے گا-
پڑھے گا بھی تو بے دلی سے پڑھے گا - تو پھر جناب اس طرح کی معافی نو واردوں کے لیے تو زہرِ قاتل کا کام دے گی - یہ تو فائدہ کے بجائے نقصان ہو جائے گا -
 
اوہو، پنجابی محاورہ استعمال کیا تھا! اس لئے سمجھ نہیں سکا، درست اردو ہوتی ہے کہ "ہم کو رسم شبیری دہرانی ہے"
پر کو بھی بمعنی لیکن سمجھنے میں مشکل ہوئی، لیکن یہ شعری زبان نہیں، بول چال میں لوگ بولتے ہیں( میں کم از کم بولنے میں بھی استعمال نہیں کرتا )۔ عجز بیان ہے اس شعر میں


اب بھی عجز بیان ہے

یہ وزن میں نہیں، نوحہ خوانی دوسری ہی چیز ہے، یہاں نوحہ گری کا محل ہے۔ نوحہ خوانی میں کسی اور کا لکھا ہوا نوحہ یا مرثیہ آپ پڑھتے ہیں، آپ کی اپنی جذباتیت سے اس کا تعلق نہیں بنتا۔ اگر درست مان بھی لیا جائے تب بھی یوں وزن میں درست ہو گا
بس یہ ہجر زدوں کی کہانی ہے
سینہ کوبی ہے یا نوحہ خوانی ہے

یہ بات الٹی ہو گئی! کہنا یہ تھا کہ درد دل کو اس لئے( سو) سنبھال کر رکھا ہے کہ یہ کرم فرما کی نشانی ہے، ویسے خیال اچھا ہے، بیان الٹا ہو گیا، "سو" کی نشست کی وجہ سے ۔ ویسے "سو" لفظ ہی بہت رواں نہیں لگتا مجھے!
بس یوں سنبھال رکھاہے درد دل
سے شاید بات کچھ بن جائے، کیا خیال ہے ارشد رشید؟
مطلع میں میَں نے تھوڑی بے ربطی ضرور محسوس کی، لیکن مطلع میں کچھ بے ربطی یا دو لختی میں معاف کر دیتا ہوں۔
ہجر زدہ دل کی ویرانی والے شعر میں بھی میں نے وہی مراد لیا جو عمران کہنا چاہتے ہیں، اس لئے قبول کر لیا۔
در یتیم کا استعمال کچھ عجیب لگا، اس لئے اسے صرف "ٹھیک" کہا، یعنی یوں بھی چل سکتا ہے شعر!
ارشد رشید ماشاء اللہ بہت باریک نظر سے دیکھتے ہیں۔

اس میں وزن کے مسائل لگ رہے ہیں شکیل میاں!
بہت بہت شکریہ سر
بہت نوازش
جزاک اللہ


کیا یہ مصرع یوں درست ہو گا؟

(بس کہ سنبھال رکھا ہے درد دل)

ایک کرم فرما کی نشانی ہے

(بس کہ ) کا استعمال درست ہے؟
 
آخری تدوین:
Top