برائے اصلاح

اگرچہ دل شکستہ بھی نہیں ہے
مگر یہ ہنستا بستا بھی نہیں ہے

اتر جاتے ہیں کیسے لوگ دل میں
بظاہر کوئی رستہ بھی نہیں ہے


تمھیں دعوی بھی ہے دیوانگی کا
تمھارا حال خستہ بھی نہیں ہے


ہمیں محروم رکھا دھوپ سے بھی
وہ بادل جو برستا بھی نہیں ہے

طلب ہے سنگ کی شوریدہ سر کو
کوئی آواز کستا بھی نہیں ہے

برا ہے حال کیوں عمران دل کا
کوئی غم جب گذشتہ بھی نہیں ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ غزل چار بار فعولن میں اگر تبدیل کر دی جائے تو میرے خیال میں زیادہ رواں ہو جائے گی۔

اگرچہ مرا دل شکستہ نہیں ہے
مگر پھر بھی یہ ہنستا بستا نہیں ہے

اتر جاتے ہیں کس طرح لوگ دل میں
بظاہر تو کوئی بھی رستہ نہیں ہے

تجھے گرچہ دعویٰ ہے دیوانگی کا
مگر حال کیوں تیرا خستہ نہیں ہے

ہمیں دھوپ سے بھی ہے محروم رکھتا
وہ بادل ہے ایسا، برستا نہیں ہے

پڑیں سنگ کیا میرے شوریدہ سر پر
اب آواز بھی کوئی کستا نہیں ہے
 
Top