برائے اصلاح

ہم کہ احسان اٹھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
آنکھ محسن سے ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم کسی ہاتھ کو لوٹا نہیں سکتے خالی
لب پہ انکار کو لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہر قدم پر کوئی سمجھوتہ ہمیں کرنا پڑے
زندگی تجھ کو بچاتے ہوئے مر جاتے ہیں

خون ہوتا ہے پتنگوں کا ہمارے باعث
ہم چراغوں کو جلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

شہر کا شہر شناسا ہے تمھارا عمران
ہم تجھے دوست بتاتے ہوئے مر جاتے ہیں
 
آخری تدوین:
Top