انیس جان
محفلین
یہ ایک اور تازہ تازہ غزل کا نزول ہوا ہے الف عین
نکال کر یہ صدف سے, لہو سے دھوئے گئے
اے پڑھنے والو! یہ موتی ہے یوں پروئے گئے
جنوں میں اور ترّقی ہوئی علاج کے بعد
ہمارے جسم پہ نشتر ہی یوں چھبوئے گئے
بس ایک رسم تھی جس کو کیا گیا پورا
ہماری لاش پہ کچھ لوگ آئے, روئے, گئے!
جہاں کو راس نہ آئی مجبت اور الفت
ہم ایسے لوگ سمندر میں ہی ڈبوئے گئے
متاعِ اشک کی عزّت کسی سے کی نہ گئی
گہر انیس یہیں پر یہ مجھ سے کھوئے گئے
نکال کر یہ صدف سے, لہو سے دھوئے گئے
اے پڑھنے والو! یہ موتی ہے یوں پروئے گئے
جنوں میں اور ترّقی ہوئی علاج کے بعد
ہمارے جسم پہ نشتر ہی یوں چھبوئے گئے
بس ایک رسم تھی جس کو کیا گیا پورا
ہماری لاش پہ کچھ لوگ آئے, روئے, گئے!
جہاں کو راس نہ آئی مجبت اور الفت
ہم ایسے لوگ سمندر میں ہی ڈبوئے گئے
متاعِ اشک کی عزّت کسی سے کی نہ گئی
گہر انیس یہیں پر یہ مجھ سے کھوئے گئے