برائے اصلاح

مجھے فطرت سے الفت ہے
بڑی شدت سے الفت ہے

پہاڑوں ،کوہساروں سے
کہ گرتی آبشاروں سے

بہاؤ سے، روانی سے
ندی کی نغمہ خوانی سے

شجر کی نرم چھاؤں سے
پرندوں کی صداؤں سے

پھلوں کے رس سے لذت سے
گلوں کی بو سے رنگت سے

گلستاں سے، بہاروں سے
مہکتے لالہ زاروں سے

چمن سے ،گل کی پتی سے
مچلتی شوخ تتلی سے

فلک سے، چاند تاروں سے
زمیں سے،سبزہ زاروں

ہواؤں سے، گھٹاؤں سے
کہ ساون کی اداؤں سے


دھنک کے سات رنگوں سے
چمکتے خر کی کی کرنوں سے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی نظم ہے۔ لیکن یہاں ۔کہ۔ کا استعمال اچھا نہیں لگ رہا۔ اسکی جگہ کچھ اور آنا چاہیے ۔ جیسے بکھرتے آبشاروں سے۔
آبشار میرے خیال میں تو مذکر ہے۔
اسی طرح ایک اور مصرع میں بھی۔کہ۔ ہے۔
الف عین بھائی۔
بہت شکریہ
بہت نوازش
جی کہ لگانا مجبوری تھی کوئی متبادل ملا تو کہ کو نکال دوں گا۔
آبشار کو کہیں میں نے شاید مونث پڑھا تھا۔
دیکھیے استاد محترم الف عین اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
آپ کا ایک بار پھر سے شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
آبشار یقیناً مذکر ہے۔
’کہ‘ کے بارے میں میں متفق ہوں عاطف سے۔
ایک تو عاطف بھائی نے تجویز دے ہی دی ہے
دوسریہ جگہ مجھے ساون کی ادائیں بھی پسند نہیں آئیں۔ پورا مصرع تبدیل کرنے کا مشورہ ہے
پھلوں کے رس سے لذت سے
رس سے۔۔ میں تنافر ہے، رس کی لذت بھی درست ہو گا
چمن سے ،گل کی پتی سے
گل کی پتی بھی عجیب ترکیب بنائی ہے، شاید مراد پنکھڑی ہے
چمکتے خر کی کی کرنوں سے
خر؟گدھے کا یہاں کیا ذکر؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خر؟گدھے کا یہاں کیا ذکر؟
لگتا ہے خور شید کو مختصر کر دیا گیا ہے ۔ جیسے ۔
پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم۔میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہو نے تک۔
لیکن اب یہ استعمال قابل قبول نہیں لگتا ۔ متروک ہی سمجھیں اسے اب ۔
 

الف عین

لائبریرین
لگتا ہے خور شید کو مختصر کر دیا گیا ہے ۔ جیسے ۔
پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم۔میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہو نے تک۔
لیکن اب یہ استعمال قابل قبول نہیں لگتا ۔ متروک ہی سمجھیں اسے اب ۔
تب اسے خور لکھا جاناتھا! خر سے تو میں ہی کیا، سبھی گدھا ہی سمجھیں گے
 
گو ۔خر بھی دُرست ہے مگر واضح طور پر پیش ۔ُ ۔۔۔کی علامت کے ساتھ جیسے۔۔۔خُر۔۔۔۔ اور کیونکہ۔ خور۔ غالب کے ہاں استعمال کی ایک مثال کے طور پر موجود ہے اِس لیے راجح یہی ہےکہ خورشید (جہاں تاب )کا مخفف خور ہی لایا جائے مگرایسے کم استعمال الفاظ سے بچنا ہی بہتر ہے اور وہ بھی نوآموز شعراکاتو خاص طور پر۔۔۔۔۔۔اور ماہر و مشاق شعراء کو اِس طرح کے الفاظ اپنے کلام میں لاکرتازہ واردانِ بساطِ ہوائے شوق کی رہنمائی کرنی چاہیے۔اصلاح کے ضمن میں بالخصوص ایک آدھ شعربنا کر سامنے رکھنا چاہیے تا کہ طلبائے ادب کو معلوم ہو کہ جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی اور یوں بھی ۔۔۔۔۔کہ خور لکھ کر خر ہی پڑھا جاتا ہے جیسے خوش لکھ کر خش اور خواب لکھ کر خاب لکھا پڑھا جاتا ہے۔۔۔۔۔لیکن خواب کو خاب لکھنا صریحاً غلط ہوگا۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
آبشار یقیناً مذکر ہے۔
’کہ‘ کے بارے میں میں متفق ہوں عاطف سے۔
ایک تو عاطف بھائی نے تجویز دے ہی دی ہے
دوسریہ جگہ مجھے ساون کی ادائیں بھی پسند نہیں آئیں۔ پورا مصرع تبدیل کرنے کا مشورہ ہے

رس سے۔۔ میں تنافر ہے، رس کی لذت بھی درست ہو گا

گل کی پتی بھی عجیب ترکیب بنائی ہے، شاید مراد پنکھڑی ہے

خر؟گدھے کا یہاں کیا ذکر؟
بہت شکریہ سر
بہت نوازش
جزاک اللہ

اترتے آبشاروں سے

کیاایسے درست ہو گا ؟

خورشید کو میں نے خور کے بجائے خر لکھ لیا تھا۔

بہت شکریہ
 
گو ۔خر بھی دُرست ہے مگر واضح طور پر پیش ۔ُ ۔۔۔کی علامت کے ساتھ جیسے۔۔۔خُر۔۔۔۔ اور کیونکہ۔ خور۔ غالب کے ہاں استعمال کی ایک مثال کے طور پر موجود ہے اِس لیے راجح یہی ہےکہ خورشید (جہاں تاب )کا مخفف خور ہی لایا جائے مگرایسے کم استعمال الفاظ سے بچنا ہی بہتر ہے اور وہ بھی نوآموز شعراکاتو خاص طور پر۔۔۔۔۔۔اور ماہر و مشاق شعراء کو اِس طرح کے الفاظ اپنے کلام میں لاکرتازہ واردانِ بساطِ ہوائے شوق کی رہنمائی کرنی چاہیے۔اصلاح کے ضمن میں بالخصوص ایک آدھ شعربنا کر سامنے رکھنا چاہیے تا کہ طلبائے ادب کو معلوم ہو کہ جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی اور یوں بھی ۔۔۔۔۔کہ خور لکھ کر خر ہی پڑھا جاتا ہے جیسے خوش لکھ کر خش اور خواب لکھ کر خاب لکھا پڑھا جاتا ہے۔۔۔۔۔لیکن خواب کو خاب لکھنا صریحاً غلط ہوگا۔۔۔۔​
بہت شکریہ
میں نے کہیں خر بھی پڑھا تھا اس لیے لکھ دیا تھا۔
مگر خور ہی بہتر ہے۔

خور کی مثالیں تو بے شمار ہیں

اشارے سے چاند چیر دیا چھپے ہوئے خور کو پھیر لیا
گئے ہوئے دن کو عصر کیا یہ تاب و تواں تمہارے لیے



کیا خور اب متروک ہے؟
 
آخری تدوین:
میں نے کہیں خر بھی پڑھا تھا اس لیے لکھ دیا تھا۔
کہنہ مشق ، آزمودہ کار، قادرالکلام،لِسّان اور زبان کی باریکیوں ،پیچیدگیوں ،نزاکتوں کو سمجھنے والا نَثّار یا شاعرجب کوئی اجنبی ، کم مستعمل حتی ٰ کہ غریب تر لفظ بھی اپنی عبارت یا شعرمیں لائے گاتو ایک تو وہ لفظ محلِ استعمال سے اپنا مطلب خود کھول کر رکھ دے گا دوسرے اُس عبارت یا جملے کی شان معلوم ہوگا اور تیسرے اپنے استعمال کامستند حوالہ اور مضبوط سند ہوجائے گالیکن کوئی دوسرا ایسا کرے گا تو وہی لفظ یوں بجھ کررہ جائے گا جیسے جلتا کوئلہ پانی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا محمدحسین آزا د اُردُو کے بہت بڑے انشاءپردازاور اِس سے بھی بڑے تمثیل نگاراور اعلیٰ درجہ کے نقاد،بلند مقام محقق گزرے ہیں اِس کے باوجود اُن پر الزام ہے کہ وہ تاریخ جیسے سنجیدہ ،بردباراور باوقارموضوع پر بھی ایک شاعر اور فسانہ طراز کی طرح قلم اُٹھاتے اورواقعات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔تواُن کاطرزِ بیان تو ایسا ہے کہ کوئی اُس کی برابری نہیں کرسکتا مگر بیانکردہ واقعات پہ کئی قسم کی آراء پائی جاتی ہیں جبکہ ہاشمی فریدآبادی بھی ایک مصنف ہیں آپ اُن کی تصنیف کردہ کتابیں اور ترجمہ شدہ تالیفات پڑھیں علم وہنر اور فن کے حوالے سے بھی اور بیانکردہ حقائق کی رُوسے بھی اُن کی عبارت پر حرف گیری کی جا نہیں۔۔۔۔۔
لبِ لباب اِس تحریرکا یہ کہ نئے شعرا کو سادہ ، آسان اور عام فہم الفاظ کی طرف جانا چاہیے قافیہ کا پیٹ بھرنے کے لیے ہی سہی اجنبی ، غریب اور نامانوس الفاظ سے پرہیزاور گریز کرنا ضروری ہے خواہ اُنھیں بڑے شاعروں اورادیبوں کے ہاں برتنے کی دسیوں مثالیں اُن کی نظر سے گزری ہوں۔۔۔​
(انٹر نیٹ پر ریختہ جیسی متعدد لائبریاں موجود ہیں جہاں سے اُردُو کا طالب ِ علم اُردُو کی کلاسیکی روایات سے شناسائی اور ہزاروں ، لاکھوں کتابوں کے ذخیرے تک رسائی حاصل کرسکتا ہے)​
 
آخری تدوین:
Top