برائے اصلاح

اگرچہ دور ہے کوسوں وفا تم سے
مگر یہ دل نہیں ہوتا خفا تم سے

تمھی ہو زہر بھی تریاق بھی ہوتم
ملے گی درد دل کی سو شفا تم سے
 

الف عین

لائبریرین
یہ تم مشاعرے باز شعرا کی طرح چار چار سطریں کیوں پیش کر رہے ہو عزیزم؟
ان دو اشعار میں قافیہ تم نے ایسا چنا ہے جو مزید ملنا مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ وفا، جفا اور خفا تو درست قافیے ہیں لیکن شِفا نہیں، کہ "فا" سے پہلے حرف کی حرکات بھی یکساں ہونی ضروری ہیں۔ جیسے وفا جفا اور خفا میں "فا" سے پہلے کے حرف پر فتحہ ہے۔ شفا میں نہیں۔
لیکن فی الحال تو یہ بھی کہنا مکمل درست نہیں کہ یہ مطلع اور ایک مزید شعر ہیں غزل کے۔ فی الحال پہلا شعر تو درست ہے، لیکن دوسرے میں "سو شفا" سے مراد؟ 100 شفائیں؟، اگر اس "سو" کو نکال بھی دیا جائے، اور بھی، ہر یا کسی اور لفظ سے بھرتی کی جائے۔ تب بھی مصرع اولی کے تریاق والی بات کادہرانا کہا جائے گا
 
یہ تم مشاعرے باز شعرا کی طرح چار چار سطریں کیوں پیش کر رہے ہو عزیزم؟
ان دو اشعار میں قافیہ تم نے ایسا چنا ہے جو مزید ملنا مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ وفا، جفا اور خفا تو درست قافیے ہیں لیکن شِفا نہیں، کہ "فا" سے پہلے حرف کی حرکات بھی یکساں ہونی ضروری ہیں۔ جیسے وفا جفا اور خفا میں "فا" سے پہلے کے حرف پر فتحہ ہے۔ شفا میں نہیں۔
لیکن فی الحال تو یہ بھی کہنا مکمل درست نہیں کہ یہ مطلع اور ایک مزید شعر ہیں غزل کے۔ فی الحال پہلا شعر تو درست ہے، لیکن دوسرے میں "سو شفا" سے مراد؟ 100 شفائیں؟، اگر اس "سو" کو نکال بھی دیا جائے، اور بھی، ہر یا کسی اور لفظ سے بھرتی کی جائے۔ تب بھی مصرع اولی کے تریاق والی بات کادہرانا کہا جائے گا
بہت شکریہ سر
بہت نواززش

جی! قافیہ مشکل ہے اس لیے بمشکل دو اشعار ہی ہوئے۔
اب مطلع ہی رہ گیا ۔شفا کی وجہ سے
اگر حرف روی ف نہ ہوتا تو دوا لگانے سے کام چل سکتا تھا۔
مزید کوشش کرتا ہوں اگر غزل ہو گئئ تو پیش کروں گا۔
بہت شکریہ
جزاک اللہ
 
Top