آئی کے عمران
محفلین
اگرچہ دور ہے کوسوں وفا تم سے
مگر یہ دل نہیں ہوتا خفا تم سے
تمھی ہو زہر بھی تریاق بھی ہوتم
ملے گی درد دل کی سو شفا تم سے
مگر یہ دل نہیں ہوتا خفا تم سے
تمھی ہو زہر بھی تریاق بھی ہوتم
ملے گی درد دل کی سو شفا تم سے
بہت شکریہ سریہ تم مشاعرے باز شعرا کی طرح چار چار سطریں کیوں پیش کر رہے ہو عزیزم؟
ان دو اشعار میں قافیہ تم نے ایسا چنا ہے جو مزید ملنا مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ وفا، جفا اور خفا تو درست قافیے ہیں لیکن شِفا نہیں، کہ "فا" سے پہلے حرف کی حرکات بھی یکساں ہونی ضروری ہیں۔ جیسے وفا جفا اور خفا میں "فا" سے پہلے کے حرف پر فتحہ ہے۔ شفا میں نہیں۔
لیکن فی الحال تو یہ بھی کہنا مکمل درست نہیں کہ یہ مطلع اور ایک مزید شعر ہیں غزل کے۔ فی الحال پہلا شعر تو درست ہے، لیکن دوسرے میں "سو شفا" سے مراد؟ 100 شفائیں؟، اگر اس "سو" کو نکال بھی دیا جائے، اور بھی، ہر یا کسی اور لفظ سے بھرتی کی جائے۔ تب بھی مصرع اولی کے تریاق والی بات کادہرانا کہا جائے گا