برائے اصلاح

زلفی شاہ

لائبریرین
مالک مہرو وفا ہو
درد میرے کی دوا ہو
سنتا ہوں باز گشت تیری
دل مِرے کی تم صدا ہو
میں صنم چاہتا تجھے ہوں
جانے کیوں مجھ سے خفا ہو
بول تیرے ہیں سریلے
جیسے بلبل کی صدا ہو
دید کی حسرت ہے دل میں
دورزلفی سے سدا ہو
 

الف عین

لائبریرین
خوش آمدید زلفی، غزل کہنے میں کم از کم عروض کی کشھ شد بد ضروری ہے، خیالات بہتر بھی ہوں تو بھی ان کو عروض کی بندشوں میں نہ باندھا جائے توغزل نہیں کہلا سکتی، نثری غزل نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ان اشعار میں خواہ مخواہ الفاظ کی نشست بدلی گئی ہے تا کہ شعر ہونے کا شک ہی ہو۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا مشورہ مانیں تو خوب ادب پڑھیں اور کم از کم یہاں اسی فورم کے سارے پچھلے دھاگے پڑھ لیں۔ اس صورت میں تو اصلاح سے سبھی معذرت کر لیں گے۔
 
Top