برائے اصلاح

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب کہاں موجِ تمنا وہ زمانے والی​
جس نے آنا نہیں، وہ تو نہیں آنے والی​
یاد تو کرتی ہوگی میری وفاؤں کو وہ روز​
میرے خط پڑھ کے مجھے روز جلانے والی​
تیری حیرت بھی بجا اور میرا شکوہ بھی درست​
وہ مگر تُو نہیں ہے ساتھ نبھانے والی​
ہاں وہ جو تنہا تھی، یکتا تھی، محبت تھی مری​
میری پلکوں سے میرے اشک چرانے والی​
میری غزلوں کا محور، میری ذات کا عکس​
میرے اشعار کو غزلیں وہ بنانے والی​
وہ میری راہ کو تکتے ہوئے روتی ہو گی​
اپنے ہاتھوں سے مجھے روٹی کھلانے والی​
حسن والوں سے ترا پیار ہے یک طرفہ بلال​
اُن میں عادت ہی نہیں قرض چکانے والی​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اب کہاں موجِ تمنا وہ زمانے والی
جس نے آنا نہیں، وہ تو نہیں آنے والی
÷÷÷ جس کو آنا نہیں درست ہے، کیونکہ میں نے جانا ہے، میں نے کھانا ہے وغیرہ میرے خیال میں ازروئے قواعد درست نہیں۔۔۔
یاد تو کرتی ہوگی میری وفاؤں کو وہ روز
میرے خط پڑھ کے مجھے روز جلانے والی
÷÷÷آپ کے خط پڑھ کے وہ آپ کو جلائے، یہ منطق میں نہیں سمجھا، کوئی آپ کے خط پڑھے اس پر تو خوش ہونا چاہئے۔ لہذا جلانے کے فعل کا رخ خطوط کی طرف موڑ دیاجائے۔ میرے خط پڑھ کے انہیں روز جلانے والی۔۔۔
تیری حیرت بھی بجا اور میرا شکوہ بھی درست
وہ مگر تُو نہیں ہے ساتھ نبھانے والی
÷÷ پھر دونوں مصرعے آپس میں ملتے نہیں۔۔ حیرت بجا ہے تو ان کی، کس چیز پر؟؟ اپنے ہی ساتھ نہ نبھانے پر؟؟ پھر آپ کا شکوہ درست ہے تو دوسرے مصرعے میں مگر کیا کر رہا ہے؟؟
تیری حیرت بھی بجا اور تیرا شکوہ بھی درست
تو مگر خود ہی نہیں ساتھ نبھانے والی۔۔۔ت
قطیع کا مسئلہ ہو تو خود دیکھ لیجئے، کیونکہ میں اس بحر میں کمزور ہوں۔
ہاں وہ جو تنہا تھی، یکتا تھی، محبت تھی مری
میری پلکوں سے میرے اشک چرانے والی
÷÷وہ جو تنہا تھی، جویکتا تھی، محبت تھی مری ، میری پلکوں سے مرے اشک چرانے والی۔۔تقطیع خود ہی دیکھئے گا اگر وزن میں نہ ہو۔
میری غزلوں کا محور، میری ذات کا عکس
میرے اشعار کو غزلیں وہ بنانے والی
÷÷ میرے اشعار کا محور ہے میری ذات کا عکس بہتر ہے، کیونکہ دوسرے مصرعے میں اشعار کی بات ہے، غزلوں کی نہیں۔ پھر غزلوں سے غزلیات بہتر تھا کہ جب غزلیات جیسا اچھا لفظ موجود ہے تو غزلوں ہی کیوں؟تقطیع کا مسئلہ آپ پر چھوڑتا ہوں اگر بے وزن لگے۔
وہ میری راہ کو تکتے ہوئے روتی ہو گی
اپنے ہاتھوں سے مجھے روٹی کھلانے والی
÷÷روٹی کھلانے والی تو ماں ہوتی ہے میرے دوست۔ پھر یہ غزل کی زبان نہیں، بہت چھوٹی بات کردی آپ نے۔۔
حسن والوں سے ترا پیار ہے یک طرفہ بلال
اُن میں عادت ہی نہیں قرض چکانے والی
÷÷ٹھیک۔۔۔
لیکن تقریبا پوری غزل میں آپ کا صیغہ مونث رہا، یہ بات میری نظر میں پسندیدہ نہیں کیونکہ شعر محدود ہوجاتا ہے۔ موقع محل کے مطابق استعمال کرنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جہاں تک روٹی کھلانے والے شعر کا تعلق ہے تو اس میں اگر ماں ہی مراد تھی تو اس کا نام لے دیاجائے کہ وہ ماں ہے، تب شعر درست ہوگا۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لیکن تقریبا پوری غزل میں آپ کا صیغہ مونث رہا، یہ بات میری نظر میں پسندیدہ نہیں کیونکہ شعر محدود ہوجاتا ہے۔ موقع محل کے مطابق استعمال کرنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔۔۔
یہ بات مجھے ایک مکالمے میں مزمل بھائی نے بھی کی تھی۔
مگر غزل لکھتے ہوئے میں نے یہ سوچا ہی نہیں۔
خیر اب کوشش کرتا ہوں ردیف ہی بدلنے کی۔
 

الف عین

لائبریرین
میں محض عروضی اغلاط کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
یاد تو کرتی ہوگی میری وفاؤں کو وہ روز
÷÷ہُگی تقطیع ہو رہا ہے، جو درست نہیں۔

تیری حیرت بھی بجا اور میرا شکوہ بھی درست
÷÷اُر تقطیع ہو رہا ہے، جس سے روانی مار کھا جاتی ہے۔ ’میرا‘ نہیں ’مرا‘ کا محل ہے، کہ تقطیع میں یوں ہی آتا ہے۔
ہاں وہ جو تنہا تھی، یکتا تھی، محبت تھی مری
۔۔یہاں بھی ’وُ جو‘ اچھا نہیں لگتا، میرے خیال میں پہلا طویل اور دوسرا مختصر ہو سکتا ہے۔ ’جو وُ‘ بہتر ہو گا۔

میری غزلوں کا محور، میری ذات کا عکس
اس کی تقطیع خود ہی کرو!!!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں محض عروضی اغلاط کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
یاد تو کرتی ہوگی میری وفاؤں کو وہ روز
÷÷ہُگی تقطیع ہو رہا ہے، جو درست نہیں۔
کوشش کرتا ہوں۔


تیری حیرت بھی بجا اور میرا شکوہ بھی درست
÷÷اُر تقطیع ہو رہا ہے، جس سے روانی مار کھا جاتی ہے۔ ’میرا‘ نہیں ’مرا‘ کا محل ہے، کہ تقطیع میں یوں ہی آتا ہے۔
ہاں وہ جو تنہا تھی، یکتا تھی، محبت تھی مری
۔۔یہاں بھی ’وُ جو‘ اچھا نہیں لگتا، میرے خیال میں پہلا طویل اور دوسرا مختصر ہو سکتا ہے۔ ’جو وُ‘ بہتر ہو گا۔
زبردست۔ معلوماتی۔ ٹھیک ہے استادِ محترم۔

میری غزلوں کا محور، میری ذات کا عکس
اس کی تقطیع خود ہی کرو!!!
او شٹ۔
محور کا لفظ شاید غلط تقطیع کیا ہے۔
 
Top