برائے اصلاح

الف عین ظہیراحمدظہیر
ابن رضا
اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
بحر ہزج مثمن سالم (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)

تری اب یاد بھی اکثر مجھے سونے نہیں دیتی
لگن یہ دل کی اے دلبر مجھے سونے نہیں دیتی

حسن تو تیری آنکھوں کا نشہ دیتا ہے سونے کا
مگر وہ گیسوئے عنبر مجھے سونے نہیں دیتی

لبِ ساحل پہ آتی تھی کبھی یوں نیند اب لیکن
بصر میں شورشِ ساگر مجھے سونے نہیں دیتی

اجالے میں کہاں ہوتی میسر فصل تنہائی
یہ لذت تنہائی شب بھر مجھے سونے نہیں دیتی

تجھے شب خواب میں دیکھوں تمنا ہے مگر لیکن
سحر پر آمدِ اختر مجھے سونے نہیں دیتی

سلانا چاہتی تو ہے اسامہ چاندنی لیکن
مگر تو سامنے آ کر مجھے سونے نہیں دیتی
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
کچھ صلاح

تری اب یاد بھی اکثر مجھے سونے نہیں دیتی
لگن یہ دل کی اے دلبر مجھے سونے نہیں دیتی
ٹھیک ہے​

حسن تو تیری آنکھوں کا نشہ دیتا ہے سونے کا
مگر وہ گیسوئے عنبر مجھے سونے نہیں دیتی​
حسن کی س پر جزم ہے، سونے کا نشہ؟ خماری وغیرہ ہونا چاہیے، اور نشست بھی بدلیں الفاظ کی ، روانی کے لیے
مگر وہ گیسو؟ کون سے گیسو؟ اوپر تیری آنکھوں کی بات ہوئی تو نیچے بھی ترے گیسو کی ہی ہونی چاہیے

لبِ ساحل پہ آتی تھی کبھی یوں نیند اب لیکن
بصر میں شورشِ ساگر مجھے سونے نہیں دیتی
یوں کا استعمال یہاں درست نہیں، اگر نیچے والا مصرع بہتر لگے تو لیکن پہلے مصرعے کے آخر میں بھی ہے اسے بدلنا پڑے گا
مگر اب شورشَ ساگر مجھے سونے نہیں دیتی


اجالے میں کہاں ہوتی میسر فصل تنہائی
یہ لذت تنہائی شب بھر مجھے سونے نہیں دیتی
دو لخت ہے اور لذت کی ذ پر تشدید ہے وزن بگڑ گیا

تجھے شب خواب میں دیکھوں تمنا ہے مگر لیکن
سحر پر آمدِ اختر مجھے سونے نہیں دیتی
مگر لیکن ایک ساتھ نہیں آتا، رواں بھی نہیں
تمنا ہے سرِ شب خواب میں ترا دیدار حاصل ہو
دوسرا مصرع بھی درست نہیں بدلنا چاہیے
ستارے تو رات کو آتے ہیں؟ اگر ستارہ ء سحری کی بات ہو رہی ہے تو ابلاغ نہیں ہو سکا

سلانا چاہتی تو ہے اسامہ چاندنی لیکن
مگر تو سامنے آ کر مجھے سونے نہیں دیتی​
لیکن مگر یہاں بھی بار بار درست نہیں

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ابن رضا کے علاوہ۔۔
گیسو مذکر ہے، سونے نہیں دیتی ردیف کا استعمال نہیں ہو سکا۔
اور
شورش ساگر کی ترکیب غلط ہے، کہ ساگر ہندی انسل لفظ ہے
 
بہت شکریہ جناب!
کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ ان پر دوبارہ اصلاح کر دیجئے۔

حسن تو تیری آنکھوں کا نشہ دیتا ہے سونے کا
مگر وہ گیسوئے عنبر مجھے سونے نہیں دیتی
سجاوٹ تیری آنکھوں کی اثر دیتی خماری کا
ترے گیسو کی وہ عنبر مجھے سونے نہیں
یہ لذت تنہائی شب بھر مجھے سونے نہیں دیتی
حظِ تنہائی پھر شب بھر مجھے سونے نہیں دیتی
تجھے شب خواب میں دیکھوں تمنا ہے مگر لیکن
سحر پر آمدِ اختر مجھے سونے نہیں دیتی
جی اس سے مرا د صبح کے ستارے کا چمکنا لیا ہے

تجھے شب خواب میں دیکھوں تمنا ہے یہ خوا ہش ہے
سماں پر آمدِ اختر مجھے سونے نہیں دیتی
سلانا چاہتی تو ہے اسامہ چاندنی لیکن
مگر تو سامنے آ کر مجھے سونے نہیں دیتی​
لیکن مگر یہاں بھی بار بار درست نہیں
سلانا چاہتی تو ہے اسامہ چاندنی شب بھر
مگر تو سامنے آکر مجھے سونے نہیں دیتی
 
ابن رضا کے علاوہ۔۔
گیسو مذکر ہے، سونے نہیں دیتی ردیف کا استعمال نہیں ہو سکا۔
اور
شورش ساگر کی ترکیب غلط ہے، کہ ساگر ہندی انسل لفظ ہے

پھر ساگر تو استعمال ہی نہیں ہو سکتا یہاں کیونکہ اضافت تو پہلے لانی ہی پڑے گی اس صورت میں ؟
 
آخری تدوین:
اب کچھ اس طرح ہے:
تری اب یاد بھی اکثر مجھے سونے نہیں دیتی
لگن یہ دل کی اے دلبر مجھے سونے نہیں دیتی

سجاوٹ تیری آنکھوں کی اثر دیتی خماری کا
ترے گیسو کی وہ عنبر مجھے سونے نہیں

اجالے میں کہاں ہوتی میسر فصل تنہائی
حظِ تنہائی پھر شب بھر مجھے سونے نہیں دیتی

تجھے شب خواب میں دیکھوں تمنا ہے یہ خوا ہش ہے
سماں پر آمدِ اختر مجھے سونے نہیں دیتی

سلانا چاہتی تو ہے اسامہ چاندنی شب بھر
مگر تو سامنے آکر مجھے سونے نہیں دیتی
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھئی، بات کہیں نہیں بنی۔ مطلع کے علاوہ۔
عنبر بھی مؤنث نہیں ہوتا۔
اور حظ بھی مذکر ہی ہے۔
اور
تجھے شب خواب میں دیکھوں تمنا ہے یہ خوا ہش ہے
سماں پر آمدِ اختر مجھے سونے نہیں دیتی
سماں سے کیا آسماں مراد ہے؟ لیکن مفہوم کے لحاظ سے بھی غلط لگ رہا ہے۔ کیا رات بھر خواب نہیں دیکھا جا سکتا؟

سلانا چاہتی تو ہے اسامہ چاندنی شب بھر
مگر تو سامنے آکر مجھے سونے نہیں دیتی
معلوم ہوتا ہے کہ محترمہ نہیں کوئی چڑیل ہے جس سے ڈرا جاتا ہے!
 
نہیں بھئی، بات کہیں نہیں بنی۔ مطلع کے علاوہ۔
عنبر بھی مؤنث نہیں ہوتا۔
اور حظ بھی مذکر ہی ہے۔
عنبر دیکھنے سے تو مؤنث لگا تھا ۔ اب کے مقابلے میں لفظ ڈھونڈنے میں میں تو ناکام ہو گیا ہوں۔
حظ کی جگہ طَرَب کیا استعمال ہو سکتا ہے
طرب تنہائی پھر شب بھر مجھے سونے نہیں دیتی۔
سماں پر آمدِ اختر مجھے سونے نہیں دیتی
سماں سے کیا آسماں مراد ہے؟ لیکن مفہوم کے لحاظ سے بھی غلط لگ رہا ہے۔ کیا رات بھر خواب نہیں دیکھا جا سکتا؟
مراد یہ تھی کہ ہمیشہ اسی خواب کی کیفیت رہے مگر صبح کا ستارہ اس خواب کے لئے فنا کا پیغام لاتا ہے۔

سلانا چاہتی تو ہے اسامہ چاندنی شب بھر
مگر تو سامنے آکر مجھے سونے نہیں دیتی
معلوم ہوتا ہے کہ محترمہ نہیں کوئی چڑیل ہے جس سے ڈرا جاتا ہے!

ہاہا ! ویسے معنی تو یہی نکل رہا ہے۔
 
طرب- (ع۔ا۔مث)
فیروزاللغات

طرب (ع)
اسم مؤنث:- فرہنگ آصفیہ ج 3 ص 242

طرب (ع) ، مونث
طالع میں نہیں طرب ذری بھی :نوراللغات
http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=طرب
اسم نکرہ (مؤنث - واحد)

طَرَب: اسم علم مؤنث عربي، وهو مصدر الفعل طرِبَ (المعجم الغنی)

الف عین
 
آخری تدوین:
Top