برائے اصلاح

عباد اللہ

محفلین
نام تیرا مجھے مداوا ھے
زخم کو جیسے مرہمِ بہروز
تیری صورت خیال و وہم میں ہے
خوابِ دیرینہ کا اثر ھے ہنوز
دردِ دل ہی مرادِ ہستی ہے
نظم عالم اسی پہ ہے مرکوز
یار کرتے ہیں تہنیت خوانی
تم بھی آؤ مری طرف کوئی روز
عام خوباں میں ہے یہ رسمِ جفا
یہ روایت روایتِ دل سوز
ناز و غمزہ سے بچ رہیں بھی اگر
وہ تکلم وہ ناوکِ دل دوز
داستانِ جنوں ہے طولانی
ہاں مگر ہے بہت نظر افروز
فکرِ فردائے دلنشیں بے کار
کچھ نہیں کچھ نہیں مگر امروز
 
آپ نے و مجہول و معروف کے قوافی ملا دیے ہیں فارسی شعرا ایسا کرتے رہے ہیں مگر اردو میں ایسا کرنا اب متروک ہے.
نظم عالم اسی پہ ہے مرکوز میں نظر تو نہیں ہے؟
اس کے علاوہ غزل اچهی ہے. مطلع کہہ کر مکمل کر لیں.
 
آخری تدوین:
نام تیرا مجھے مداوا ھے
زخم کو جیسے مرہمِ بہروز

۔1۔ قوافی: واوِ مجہول اور واوِ معروف کو مقابل لانے کی اسناد بہت ملتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ایک ذرا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں: آپ سارے قوافی ماسوائے "مرکُوز" فارسی کے لائے ہیں۔ اس میں اصلاً واوِ معروف ہے، اس کو ہم نہیں بدل سکتے۔ لفظ "ہنوز" میرے محدود علم کے مطابق واوِ معروف کے ساتھ ہے۔ باقی سب میں اردو اور فارسی کے فرق کی گنجائش موجود ہے تاہم ضروری نہیں کہ ہم اردو غزل میں فارسی اندازِ قافیہ ہی کو ترجیح دیں۔ اردو کے لئے اردو انداز اچھا لگتا ہے، فرضِ عین یہ بھی نہیں۔ جمالیات میں کسی لہجے کا مانوس یا غیرمانوس ہونا بھی اثر رکھتا ہے۔

۔2۔ مضامین: آپ نے سارے مضامین بڑے (بسیط) منتخب کئے ہیں۔ بسا اوقات (بلکہ میرا تجربہ بھی ہے کہ) بڑے مضامین کو چھوٹی بحر میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم عجزِ بیان کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اور غیر مقبول لسانیاتی تصرف کے بھی؛ یا کچھ اور ایسی بات جو آپ کے کلام میں چاشنی اور انشا پر اثر انداز ہو جائے۔ اس سے غزل بہر طور متاثر ہوتی ہے۔

۔3۔ مطلع: غزل کا پہلا شعر مطلع ہے۔ اس کے دونوں مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا کسی زمانے میں شرطِ اول ہوا کرتا تھا؛ مطلعِ اول، مطلعِ ثانی، حسنِ مطلع سب میں یہی قافیے کا حوالہ ہے۔ فی زمانہ مطلع میں قافیے کا ویسا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ تاہم میں ایک پختہ کار شاعر سے یہ توقع ضرور رکھا کرتا ہوں کہ مطلع ایسا زوردار تو ہو کہ قاری کو کھینچ لے (قاری مطلع سے بدک گیا، تو گیا)۔ یا ایسا ہو کہ مطلع بعد کے اشعار کے لئے کسی فضا کی بنیاد ڈال دے۔ ایسا ہو سکے تو شعر سہ آتشہ ہو جاتا ہے۔

۔4۔ دو چشمی ھ: اردو میں کوئی لفظ دو چشمی ھ سے شروع نہیں ہوتا۔ کلاسیکی اور اس سے پہلے کے ادوار میں ایسا ہو جاتا تھا، بعد میں بجا طور پر ترک کر دیا گیا۔ فارسی اور عربی میں گول ہ (تُری والی ہ) اور دو چشمی ھ میں فرق نہیں رکھتے تھے۔ یائے کی شکل (ی، ے) میں تو وہ اب بھی کوئی فرق نہیں رکھتے، اردو کا معاملہ خاصا بدل چکا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ متداول طریقوں کو (بہ شرطِ حُسن) اعتبار دیا جائے۔

دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔

عباد اللہ
 
آخری تدوین:
نام تیرا مجھے مداوا ھے
زخم کو جیسے مرہمِ بہروز
آپ کی غزل آپ کی پختہ کاری کا پتہ دے رہی ہے۔ سو، میری گزارشات بھی ویسی نہیں ہوں گی جیسی ایک نوآموز شاعر کے لئے ہوتی ہیں۔

یہ پوسٹنگ میں زائد ہو گیا ہے۔ اس کو حذف کرنے کی درخواست کر رہا ہوں
 

عباد اللہ

محفلین
آپ نے و مجہول و معروف کے قوافی ملا دیے فارسی شعرا ایسا کرتے رہے ہیں مگر اردو میں ایسا کرنا اب متروک ہے.
نظم عال اسی پہ ہے مرکوز میں نظر تو نہیں ہے؟
اس کے علاوہ غزل اچهی ہے. مطلع کہہ کر مکمل کر لیں.
نظمِ عالم کہا ھے بھیا
دراصل مجھے نہ عروض کی شدھ بدھ سے اور نہ ہی قوافی سے متعلق کوئی بھی کتاب پڑھنے کا موقع ملا پایا ھے
اپنی طبع اور قیاس کے مطابق شعر کہتا ہوں
میرے علم میں اضافہ کی خاطر و مجہول اور معروف پر کچھ راشنی ڈالئے
 

عباد اللہ

محفلین
آپ کی غزل آپ کی پختہ کاری کا پتہ دے رہی ہے۔ سو، میری گزارشات بھی ویسی نہیں ہوں گی جیسی ایک نوآموز شاعر کے لئے ہوتی ہیں۔

یہ پوسٹنگ میں زائد ہو گیا ہے۔ اس کو حذف کرنے کی درخواست کر رہا ہوں
بہت شکریہ سر یہ واقعی زائد ھے میں کسی طور پختہ کار نہیں ہوں
آپ نے جن نکات کی بات کی ھے وللہ کچھ سمجھ نہیں آئی کہ آپکا اشارہ کس طرف ھے
اگر کچھ روشنی ڈالیں تو ممنون رہوں گا
مجھے نو آموز ہی کی طرح ٹریٹ کیا کریں سر
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آخری شعر میں مگر ،" بےکار "کے لفظی و معنوی تاثر سے متصادم لگ رہا ہے ۔ پہلے مصرع کو" مگر" کے مطابق اسلوب دیجیئے
اس طرح "کچھ نہیں" کی تکرار موثر تر ہو سکتی ہے۔ تمام اشعار کا مجموعی تاثر بہت اچھا لگا ۔خوب داد آپ کے لیے۔
(تہنیت کے ساتھ خوانی شاید مقبول محاورہ نہیں صرف تہنیت یا تبریک مجرد ہو شاید بہتر لگے۔واللہ اعلم )
 
بہت شکریہ سر یہ واقعی زائد ھے میں کسی طور پختہ کار نہیں ہوں
آپ نے جن نکات کی بات کی ھے وللہ کچھ سمجھ نہیں آئی کہ آپکا اشارہ کس طرف ھے
اگر کچھ روشنی ڈالیں تو ممنون رہوں گا
مجھے نو آموز ہی کی طرح ٹریٹ کیا کریں سر
جواب نمبر 6 تفصیلی ہے۔ جواب نمبر 7 زائد تھا۔
 

عباد اللہ

محفلین
آخری شعر میں مگر ،" بےکار "کے لفظی و معنوی تاثر سے متصادم لگ رہا ہے ۔ پہلے مصرع کو" مگر" کے مطابق اسلوب دیجیئے
اس طرح "کچھ نہیں" کی تکرار موثر تر ہو سکتی ہے۔ تمام اشعار کا مجموعی تاثر بہت اچھا لگا ۔خوب داد آپ کے لیے۔
(تہنیت کے ساتھ خوانی شاید مقبول محاورہ نہیں صرف تہنیت یا تبریک مجرد ہو شاید بہتر لگے۔واللہ اعلم )
بہت شکریہ سر
شعر کو آپ کی راہنمائی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں
 
۔1۔ دراصل مجھے نہ عروض کی شدھ بدھ سے (شُد بُد ہے) اور نہ ہی قوافی سے متعلق کوئی بھی کتاب پڑھنے کا موقع ملا پایا ھے۔ اپنی طبع اور قیاس کے مطابق شعر کہتا ہوں
۔2۔ میرے علم میں اضافہ کی خاطر و مجہول اور معروف پر کچھ راشنی ڈالئے

اپنی طبع اور قیاس بڑی اچھی بات ہے تاہم یہ اکیلی آپ کا تادیر ساتھ نہیں دے سکے گی۔ عروض اور قوافی پر بہت عمدہ کتابیں دستیاب ہیں۔ اسی فورم پر مختلف کتابوں کے لنکس کی ایک طویل فہرست تو جناب حسان خان نے رکھی ہے، ایک میں نے بھی رکھی ہے۔ اہم تر بات یہ ہے کہ اپنے ہم عصر سینئر دوستوں کی شاعری پڑھئے۔ اور اگلے مرحلے میں احمد فراز اور ناصر کاظمی کا مطالعہ کیجئے، پھر اساتذہ کا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مضمون اور زبان کے ساتھ ان بزرگوں کا برتاؤ کیسا ہے۔

معروف اور مجہول: تفصیل تو خیر نہیں (کہ لکھنا بہت پڑے گا، اور یہ بوڑھی ہڈیاں احتجاج کی عادی ہوتی جا رہی ہیں)؛ کچھ مختصر مختصر عرض کر دوں۔
اپنے ماقبل کے اعراب کے حوالے سے واو اور یائے (غیر متحرک) کی تین تین صورتیں ہیں:
واوَ لِین اور یائے لِین (اعراب غیر موافق۔ زبر الف کا اعراب ہے): اِن سے پہلے حرف پر زبر ہو؛ طَور، دَوڑنا، سَودا، چَوڑائی، خَیر، حَیرت، حَیوان، مَے، شَے، کَیسا، بَیر (دشمنی)۔
واوِ مجہول اور یائے مجہول (اعراب کا نہ ہونا): اِن سے پہلے حرف پر کوئی حَرکت نہ ہو؛ چور، مور، دو، لو، دیکھو، سوچو، بے کار، تیرا، میرا، تیز، بیچے، دیگ، بیر (پھل)۔
نوٹ: واوِ معدُولہ اس بحث میں شامل نہیں ہے۔
واوِ معروف (اعراب موافق ۔ پیش واو کا اعراب ہے): واو سے پہلے حرف پر پیش ہونا؛ خُون، طُوفان، سپُوت، قصُور، جمُود، طاغُوت، حُور، مُور۔
یائے معروف (اعراب موافق ۔ زیر یائے کا اعراب ہے): تِین، مدارِی، دِیوار، رِیش، شِیشہ، بِیر (ہندو اساطیر کی ایک اصطلاح)۔
نوٹ: اردو میں رسماً یائے لِین اور یائے مجہول کے لئے لمبی ے، اور یائے معروف کے لئے گول ی لکھتے ہیں۔ عربی فارسی میں ایسا لازم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
سر ان لنکس تک میری رہنمائی فرمائیے گا
لمبا کام ہے اگر کر سکیں۔
میرا اور حسان خان کا اکاؤنٹ دیکھئے اور اس میں "شامل کردہ مواد" میں تلاش کریں۔
ایک اور جگہ ہے، میرا بلاگ۔ وہاں بھی کچھ فہرستیں رکھی ہیں۔ صفحے کے بائیں طرف والی سرمئی پٹی کو گھمائیں۔ فہرستیں ایک سے زیادہ ہیں۔ (کتاب گھر۔ 1 سے 12 تک)
 

عباد اللہ

محفلین
مرزا یاس نے جو غالب کے بارے میں زبان درازیاں کی ہیں ان کو نظر انداز کر دیجیے گا.:)
یہ چراغَ سخن تو میرا پڑھا ہوا نہیں ھے لیکن ایک رسالہ غالب شکن یا شاید کچھ اور نام تھا انٹر نیٹ پر میں نے پڑھا تھا
اس سے ملتا جلتا متن تھا اس کا
 
Top