برائے اصلاح

السلام علیکم اساتذہ اکرام، میری یہ پہلی پوسٹ ہے اس فورم پر،مہربانی فرما کر اس کی اصلاح فرما دیجیے۔

مفتَعِلن فاعلن مفتَعِلن فاعلن

شکوہ محبت کو بھی کوئی زباں چاہیے
سوز جگر کے لیے کوئی مکاں چاہیے
چاہتے ہیں وہ ہو جائیں ہم اسیر ان کے
خود سروں کوپر نہ یہ بارگراں چاہیے
لطف کیا جو تری یاد سے آزاد ہو
تیرے تو غم کی ہمیں آہ فغاں چاہیے
حیراں ہیں لیکن خفا تو نہیں عاشق ترے
سنگ ترے ہونے کا ان کو گماں چاہیے
تیرے ہیں تابع کسی عذر کی وسعت کہاں
ریت کے پابند ہیں صدائے اذاں چاہیے
گونجے کی فُزتُ و رب الکعبہ کی آواز
وہ ہی لگن وہ ہی جذبہ وہی جاں چاہیے
کر تو دیں اب کربلا برپا یہ ابرار پر
انﷺکی ہی عترت کاسالار جواں چاہیے
 
آخری تدوین:
جناب محترم الف عین صاحب اگر مناسب سمجھیں تو مہربانی فرما کر تصیح فرما دیں۔ اور اگر یہ کاوش اس قابل ہی نہیں کہ اس پر نظر ثانی کی جائے تب بھی مہربانی فرما کر مطلع فرما دیں تاکہ بندہ آئندہ سے ایسی جسارت سے اجتناب کرے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ کچھ خامیاں ضرور ہیں لیکن ایسی نہیں کہ میں تم کو شاعری کرنے سے باز رکھوں!!!
یہ مصرعے درست بحر میں ہیں۔
1شکوہ محبت کو بھی کوئی زباں چاہیے
سوز جگر کے لیے کوئی مکاں چاہیے

2خود سروں کوپر نہ یہ بارگراں چاہیے

تیرے تو غم کی ہمیں آہ فغاں چاہیے
3حیراں ہیں لیکن خفا تو نہیں عاشق ترے
4 سنگ ترے ہونے کا ان کو گماں چاہیے
5تیرے ہیں تابع کسی عذر کی وسعت کہاں

کر تو دیں اب کربلا برپا یہ ابرار پر
باقی بحر میں نہیں ہیں۔ ان میں بھی کچھ اغلاط ہیں۔ نمبر ان مصرعوں کا ہے جو اوپر دئے ہیں۔
1۔ شکوہ محبت سے مراد؟ کیا شکوہء محبت کہنا چاہتے تھے؟
2۔ بیانیہ چست نہیں، ’پر نہ یہ‘ عجیب سا ہے۔
3۔ اس قسم کی بحور میں جس میں دو الگ الگ تکڑے ہوں، بہتر ہو کہ ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو، آدھا جملہ پہلے اور باقی دوسرے نصف میں اچھا نہیں لگتا۔ جیسے یہاں۔ اس کو مثال کے طور پر یوں کہو تو
تجھ سے خفا تو نہیں، صرف ہیں حیران ہم
4۔ سنگ کا استعمال اچھا نہیں جب کہ ’ساتھ‘ بھی آ سکتا ہے۔ ترے ہونے کا میں حروف کا اسقاط بھی اچھا نہیں۔ اس کو تبدیل کر دو۔ جیسے
ساتھ ہمارے ہے تو، صرف گماں چاہیے
5۔ یہ مصرع بھی بات کو دو ٹکڑوں میں بانٹ رہا ہے۔

جن کو بحر سے خارج قرار دے رہا ہوں، ان کی تقطیع کر کے دیکھو اور دکھاؤ۔ ممکن ہے کہیں تلفظ کی غلطی ہو۔
 
بہت مہربانی جناب الف عین صاحب حوصلہ افزائی کا شکریہ، یقین جانیے آپ کے الفاظ میرے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ کوشش تو ایک عرصہ دراز سے کر رہا تھا لیکن پہلی مرتبہ اپنا لکھا ہوا کچھ اصلاح کے لیے پیش کیا ہے اور الحمداللہ آپ کے الفاظ سے دل کو بہت تسلی ہوئی۔ امید ہے آئندہ بھی آپ شفقت فرماتے رہیں گے۔
جیسا آپ نے فرمایا کچھ اصلاح کے بعد اشعار جو بحر میں ہیں حاضر ہیں۔

1 ۔۔۔۔ شکوہ ءغم کو بھی تو کوئی زباں چاہیے
سوز جگر کے لیے کوئی مکاں چاہیے

2 ۔۔۔۔ گر نہیں ہیں عادت انھیں بھی قوانین کی
خود سروں کو بھی نہیں بار گراں چاہیے

4۔ 3۔۔۔۔ حیراں کھڑے ہیں سبھی، تجھ سے خفا تو نہیں
ساتھ ہمارے ہے تو، صرف گماں چاہیے

5 ۔۔۔۔ کوئی تردد نہیں، تیرے ہیں تابع سبھی
ریت کے پابند ہیں، صدائے اذاں چاہیے

باقی اشعار بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد حاضر ہیں

وہ خوشی تو ہے نہیں، تیرے سوا جوملے
تیرے تو غم کی ہمیں، آہ فغاں چاہیے

گونجے گا ہر سمت پھر نام بھی محبوب کا
وہ ہی لگن وہ ہی جذبہ وہی جاں چاہیے

آخری شعر کی اصلاح کے بعد تقطیع میری ناقص فہم کے مطابق کچھ ایسے ہے

دجلہ بھی ہے کربلا بھی اسی جا پر مگر
12 1 2 212 2 11 2 2 21
انﷺ کی ہی عترت سے جاں باز جواں چاہیے
2 1 1 22 1 2 12 21 212
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ میں اب دیکھ رہاہوں کہ بحر کے افاعیل غلط لکھے ہیں۔ درست ہوں گے مفتعلن مفاعلن، فاعلن نہیں۔ مفاعلن پر تقطیع کریں۔
1 ۔۔۔۔ شکوہ ءغم کو بھی تو کوئی زباں چاہیے
سوز جگر کے لیے کوئی مکاں چاہیے
÷÷ اب مفہوم کے اعتبار سے دیکھوں تو دو لخت سا شعر ہے۔ دووں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے۔ سوز جگر مکان میں ہی ممکن ہے؟

2 ۔۔۔۔ چاہتے ہیں وہ ہمیں، اپنا مقید کریں
خود سروں کوخود پر، نہ بارگراں چاہیے
÷÷مقید لفظ یہں غلط ہے۔ ان معنوں میں غلام، محکوم زیادہ بہتر ہے۔
دوسرا مصرع بہت مجہول ہے۔بحر سے خارج بھی ہے، خود پہ نا‘ وزن میں آتا ہے۔ حالانکہ میں ’نہ‘ کو ’نا‘ باندھنا پسند نہیں کرتا۔ دسرے بار گراں چاہئے مفہوم سے عاری ہے۔ شاید تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ بار گران نہیں ہونا چاہیے؟؟

4۔ 3۔۔۔۔ حیراں کھڑے ہیں سبھی، تجھ سے خفا تو نہیں
ساتھ ہمارے ہے تو، صرف گماں چاہیے
÷÷کیا میرا مجوزہ مصرع پسند نہیں آیا۔ تو کوئی دوسرا کہو۔
5 ۔۔۔۔ کوئی تردد نہیں، تیرے ہیں تابع سبھی
ریت کے پابند ہیں، صدائے اذاں چاہیے
÷÷صدائے اذان یہاں نہیں آ سکتا۔ اس بحر میں۔ اس مصرع کو پہلے ہی خارج از بحر کا اعلان کر دیا تھا میں نے۔ پہلا اب رواں ہے۔

نئے اشعار
وہ خوشی تو ہے نہیں، تیرے سوا جوملے
تیرے تو غم کی ہمیں، آہ فغاں چاہیے
۔۔غم کی آہ و فغاں؟ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

گونجے گا ہر سمت پھر، نام ترے رب کا
وہ ہی لگن وہ ہی جذبہ وہی جاں چاہیے
÷÷پہلے مصرع میں رب، عربی تلفظ سے بحر میں آ رہا ہے۔ اردو میں یہ تلفظ مستعمل نہیں۔
دوسرا مصرع، دو ٹکڑوں میں لفظ ہی ٹوٹ رہا ہے۔ وہ ہی لگن وہ ہی جذ۔۔۔ بہ وہی جاں چاہیے
پھر جاں لگن اور جذبے کی قبیل کا تو لفظ نہیں۔
 
بہت شکریہ جناب الف عین صاحب راہنمائی کے لیے۔ بحر کی نشاندہی میں نے عروض سے کی ہے اور اس میں
مفتَعِلن فاعلن مفتَعِلن فاعلن
ہی لکھا آ رہا ہے۔ (n)۔ خیر جیسا آپ نے فرمایا، میں انشااللہ تصیح کر کے پھر پیش کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
جنا ب الف عین صاحب میں آپ کو استاد محترم لکھ سکتا ہوں؟ میرے لیے توآپ استاد ہی ہیں پوچھ اس لیے رہا ہوں کہ آپ نے مجھے شاگردی میں قبول کیا ہے یا نہیں :disdain:
آپ کے مجوزہ شعر سے مناسبت نہیں ہو رہی تھی اور وجہ یہ تھی کہ خود اپنی سمجھ غلط تھی، گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، آپکا عطا کر دہ شعر بنا کسی ردوبدل کے شامل کر لیا ہے۔ باق اشعار بھی نظر ثانی کے بعد پیش خدمت ہیں۔ امید ہے آپ شفقت فرمائیں گے۔

شکوہ ءغم کو بھی تو کوئی زباں چاہیے
ورنہ کسے یہ مصیبت مری جاں چاہیے
گر نہیں ہے عادت انھیں ابھی رسوایوں کی
خود سروں کو پھر تکلف یہ کہاں چاہیے
وہ خوشی تو ہے نہیں جس میں تو شامل نہیں
تجھ سے جو واصل کرے ہمیں وہ جہاں چاہیے
تجھ سے خفا تو نہیں صرف ہیں حیران ہم
ساتھ ہمارے ہے تو صرف گماں چاہیے
کوئی تردد نہیں تیرے ہیں تابع سبھی
تیرے ہیں بندے کسے عشق بتاں چاہیے
گونجے تو ہے ہر سو مسجد میں ترانہ ترا

دل کو جو تڑپا دے وہ ذوق اذاں چاہیے
 
جناب الف عین صاحب آخری شعر کے بارے میں خود تذبذب کا شکار ہوں، لہذا اس کو کچھ یوں کہا ہے

نام کی تیرے صدا سنتے ہیں ہم بھی خدا
دل کو جو تڑپا دے وہ ذوق اذاں چاہیے

اس پر بھی راہنمائی درکار ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اکثر لوگ مجھے استاد کہتے ہی ہیں ویسے میں تو کسی کی استادی قبول نہیں کرتا۔ مشورہ تو سب کو ہی دیتا ہوں، اور بغیر کسی لاگ لپٹ کے۔ اس لیے شاگردی میں قبول تو نہیں کروں گا، لیکن انکار کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا!!! اگرچہ ہر بار سوچتا ہوں کہ محفل میں آج کل محض اسی کام میں سارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ لائبریری اور سمت کے لیے مختص وقت میں سے۔ اکثر سوچتا ہوں کہ یہاں آیا ہی نہ کروں، لیکن پھر بھی دن میں دو ایک بار یہاں جھانک ہی لیتا ہوں، اور پھر تم جیسے لوگوں کی پکار کو سننا ہی پڑتا ہے!!
اب بھی تم نے میری اس بات پر دھیان نہیں گیا کہ ایک ہی لفظ یا بات بھی رمیان میں ٹوٹ رہی ہے بحر کے دو حصوں کی وجہ سے۔

ورنہ کسے یہ مصی ،،،، بت مری جاں چاہیے

یہ مصرع اب بھی بحر میں نہیں۔


گر نہیں ہے عادت انھیں ابھی رسوایوں کی
خود سروں کو پھر تکلف یہ کہاں چاہیے
تجھ سے جو واصل کرے ہمیں وہ جہاں چاہیے
گونجے تو ہے ہر سو مسجد میں ترانہ ترا
 
اکثر لوگ مجھے استاد کہتے ہی ہیں ویسے میں تو کسی کی استادی قبول نہیں کرتا۔ مشورہ تو سب کو ہی دیتا ہوں، اور بغیر کسی لاگ لپٹ کے۔ اس لیے شاگردی میں قبول تو نہیں کروں گا، لیکن انکار کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا!!! اگرچہ ہر بار سوچتا ہوں کہ محفل میں آج کل محض اسی کام میں سارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ لائبریری اور سمت کے لیے مختص وقت میں سے۔ اکثر سوچتا ہوں کہ یہاں آیا ہی نہ کروں، لیکن پھر بھی دن میں دو ایک بار یہاں جھانک ہی لیتا ہوں، اور پھر تم جیسے لوگوں کی پکار کو سننا ہی پڑتا ہے!!
اب بھی تم نے میری اس بات پر دھیان نہیں گیا کہ ایک ہی لفظ یا بات بھی رمیان میں ٹوٹ رہی ہے بحر کے دو حصوں کی وجہ سے۔

ورنہ کسے یہ مصی ،،،، بت مری جاں چاہیے

یہ مصرع اب بھی بحر میں نہیں۔


گر نہیں ہے عادت انھیں ابھی رسوایوں کی
خود سروں کو پھر تکلف یہ کہاں چاہیے
تجھ سے جو واصل کرے ہمیں وہ جہاں چاہیے
گونجے تو ہے ہر سو مسجد میں ترانہ ترا
خدا را! نہ آنے کی بات نہ کریں - ہم جیسے پردیسوں کا اور کون سہارہ ہے ؟
 
بہت مہربانی جناب الف عین صاحب، شاگردی میں قبول کرنے کا حق بلا شبہ آپ کے پاس ہے۔ جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ مگر خدارا اپنے مفید مشوروں سے ہمیں محروم نہ کیجیے گا۔ میں دوبارہ گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، اپنی کج فہمی کی وجہ سے آپ کی نصیحت پر دھیان نہیں گیا۔ دو جملوں کا ایک ہی مصرع میں تو خیال کر لیا تھا لیکن لفظ کی طرف دھیان نہیں گیا۔ آیندہ خیال رکھوں گا انشاءاللہ۔ پھر سے کوشش کرتا ہوں۔
 

عاطف ملک

محفلین
اگرچہ ہر بار سوچتا ہوں کہ محفل میں آج کل محض اسی کام میں سارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ لائبریری اور سمت کے لیے مختص وقت میں سے۔ اکثر سوچتا ہوں کہ یہاں آیا ہی نہ کروں
جانے کی باتیں جانے دیں محترم!
آپ نہ ہوں گے تو ہماری کون سنے گا؟؟؟
 
جناب محترم الف عین صاحب اس پر نظر ثانی فرما دیجیے

ورنہ کسے یہ مصی ،،،، بت مری جاں چاہیے
اس کو یوں بدل دیا ہے
ورنہ کسے کلفتیں یہ مری جاں چاہیے

یہ مصرع اب بھی بحر میں نہیں۔

گر نہیں ہے عادت انھیں ابھی رسوایوں کی
خود سروں کو پھر تکلف یہ کہاں چاہیے
تجھ سے جو واصل کرے ہمیں وہ جہاں چاہیے
گونجے تو ہے ہر سو مسجد میں ترانہ ترا
ان کو بھی بدل دیا ہے
ان کو ہے ڈر اس قدر اپنی ہی رسوائی کا
خود سروں کو بھی نہیں بار گراں چاہیے

وہ خوشی تو ہے نہیں جس میں تو شامل نہیں
تجھ سے جو واصل کرے ایسا جہاں چاہیے

نام کی تیرے صدا گونجے تو ہے ہر جگہ
دل کو جو تڑپا دے وہ ذوق اذاں چاہیے
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہو گئے ہیں۔ لیکن ’کلفتیں‘ مجھے ابھی بھی پسند نہیں آ رہی ہیں
ورنہ مصیبت کسے یوں مری جاں چاہیے۔ کیسا رہے گا؟
 
بہت بہت شکریہ الف عین صاحب درست فرمایا آپ نے 'کلفتیں' واقعی جچ نہیں رہا۔ جیسا آپ نے فرمایا وہی مصرع شامل کر لیا ہے۔

شکوہ ءغم کو بھی تو کوئی زباں چاہیے
ورنہ مصیبت کسے یوں مری جاں چاہیے
ان کو ہے ڈر اس قدر اپنی ہی رسوائی کا
خود سروں کو بھی نہیں بار گراں چاہیے
وہ خوشی تو ہے نہیں جس میں تو شامل نہیں
تجھ سے جو واصل کرے ایسا جہاں چاہیے
تجھ سے خفا تو نہیں صرف ہیں حیران ہم
ساتھ ہمارے ہے تو صرف گماں چاہیے
کوئی تردد نہیں تیرے ہیں تابع سبھی
تیرے ہیں بندے کسے عشق بتاں چاہیے
نام کی تیرے صدا گونجے تو ہے ہر جگہ
دل کو جو تڑپا دے وہ ذوق اذاں چاہیے

آپ کی راہنمائی میں الحمد اللہ بہت سی باتیں سیکھنے کو ملی ہیں۔ امید ہے آپ آئیندہ بھی ایسے ہی شفقت فرماتے رہیں گے۔ جزاءکم اللہ خیر
 
Top