شکریہ خلیل، یہاں بھی میرا کام نصف کر دیا ہے تو باقی کام ابھی نمٹا دیتا ہوں، پینڈنگ نہیں کرتا۔
لیکن پہلے زحال سے یہ ضرور کہوں گا جو اکثر مبتدیوں سے کہتا ہوں، خوب پڑھیں مستند کلام، عروض سے واقفیت حاصل کریں۔ زیادہ پڑھنے کی وجہ سے بھی طبع میں موزونی خود بخود آ جاتی ہے۔ بہر حال اب خلیل کی اصلاح شدہ غزل کی اصلاح۔
یہ غزل ہے کہ ہے آئینہ مقابلِ میرے
کیسے بھولوں تجھے اے جاگتے قاتِل میرے
÷÷ جاگتے کا اضافہ کیوں؟ اس لفظ کی ضرورت نہیں ہے، ویسے بھی اس شعر کا مفہوم کیا نکلتا ہے، میری سمجھ میں تو نہیں آیا۔ اگر یہ مفہوم ہے کہ اپنی غزل ہی مجھے محبوب کی یاد دلاتی ہے، تو ’جاگتا‘ مزید بھٹکانے کا کام کرتا ہے قاری کو۔ اگر صرف وہی مفہوم ہے تو ذرا اسی بات کو پھیلا کر یوں کہا جائے تو؟
کس طرح بھول سکوں گا تجھے قاتل میرے
کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ ہے مجھ سے
یوں فراموش نہ کرمجھ کو اے غافِل میرے
÷÷’غافل‘ کا یہ استعمال زحال نے غلط ہی کیا ہے، جسے خلیل نے بھی اپنا لیا ہے۔ یہ قافیہ ہی مجھے پسند نہیں آیا، ’غافل مجھ سے‘ تو ممکن ہے لیکن ’غافل میرے؟؟؟؟ اس شعر کو چھوڑ رہا ہوں
تو سکونِ دل و جاں تو ہی تسلی ہے مری
تو ہی دنیا ہے، تو ہی زیست کا حاصل میرے
÷÷یہاں صیغے کی گڑبڑ ہے، ’میری زیست‘ ہونا چاہئے، ’حاصل میرے‘ سے کچھ اور سوچو، فی الحال اس شعر کو بھی چھوڑ رہا ہوں۔
تیری آنکھوں سے جو یہ لعل و گہر ٹپکے ہیں
اشک ہیں آج انھی اشکوں میں شامل میرے
÷÷دوسرے مصرع میں ’آج‘ کیوں؟
کچھ تو ان اشکوں میں آنسو بھی ہیں شامل میرے
زیادہ بہتر اور رواں نہیں لگتا؟
زندگی کا مِرا تو ہی ہے چمکتا سورج
تیرگی میں تو ہی ہے اے مہِ کامل میرے
÷÷درست ہے بس ذرا روانی کی خاطر کچھ تبدیلیاں ممکن ہیں، جیسے
میرے آکاش پہ تو ہی ہے چمکتا سورج
یا
میرے دن کے لئے ہے تو ہی چمکتا سورج
اور دوسرا مصرع یوں۔۔
میری راتوں میں ہے تو ہی مہ کامل میرے
یا
خلیل کا مصرع کچھ تصرف کے ساتھ
تیرگی میں ہے تو ہی اے مہ کامل میرے