مانی عباسی
محفلین
جلتی ہے کیوں ھمیشہ یہ کائنات مجھ سے
جب بھی کبھی ملائے تنہائی ہاتھ مجھ سے
کیوں پوچھتے ہو یارو رتبہِ ذات مجھ سے
کرتا نہیں ہےمیرا دل کوئی بات مجھ سے
مل جائے چاند تو پوچھوں گا یہ آج اس سے
کیوں روز چھین لیتے ہو میری رات مجھ سے
تھا پیکرِ وفا .... چاہت کا مگر مخالف
یادیں نبھاتی ہیں جسکی اب بھی ساتھ مجھ سے
حور و پری کے جلوے کی اب نہیں ضرورت
محوِ خطاب ہے مانی "خوش صفات" مجھ سے