برائے تنقید و اصلاح "مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن"

انکارِ محبت ہی آغازِ محبت ہے
اصرار بہت کرنا اندازِ محبت ہے

الفاظ بہت سے ہیں خاموشی کے دامن میں
سب جانتے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے

احباب کو اب تک بھی معلوم نہیں شاید
کے آنسو فقط آنسو آوازِ محبت ہے

یہ آہ و فغاں اپنے سینے سے جو اُٹھتی ہے
کیوں لوگ یہ کہتے ہیں کے سازِ محبت ہے

یہ درد غنیمت ہے جو ساتھ تو رہتا ہے
دیتا ہے مزہ غم بھی اعجازِ محبت ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کہ کو بطور ’کے‘ استعمال کرنا مجھے پسند نہیں۔
خلیل میاں کی ’صلاح‘ کے بعد یہ مصرع
سب جانتے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے
کا مفہوم کچھ بدل جاتا ہے، ایسا لگ رہا ہے۔
اگر
سب جان کے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے
کر دیا جائے تو بہتر
کے آنسو فقط آنسو آوازِ محبت ہے
کے الفاظ بھی بدلیں
 
کہ کو بطور ’کے‘ استعمال کرنا مجھے پسند نہیں۔
خلیل میاں کی ’صلاح‘ کے بعد یہ مصرع
سب جانتے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے
کا مفہوم کچھ بدل جاتا ہے، ایسا لگ رہا ہے۔
اگر
سب جان کے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے
کر دیا جائے تو بہتر
کے آنسو فقط آنسو آوازِ محبت ہے
کے الفاظ بھی بدلیں
جی بہتر سر
 
کہ کو بطور ’کے‘ استعمال کرنا مجھے پسند نہیں۔
خلیل میاں کی ’صلاح‘ کے بعد یہ مصرع
سب جانتے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے
کا مفہوم کچھ بدل جاتا ہے، ایسا لگ رہا ہے۔
اگر
سب جان کے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے
کر دیا جائے تو بہتر
کے آنسو فقط آنسو آوازِ محبت ہے
کے الفاظ بھی بدلیں
سر باقی اشعار
 
Top