Wajih Bukhari
محفلین
جناب علی اصغر
صحرا کو کیا جس نے تبسم سے گلستاں
آغوش میں وہ پھول اٹھا لائے تھے ذیشاں
چہرہ وہ حسیں پیاس کی شدت سے تھا ویراں
اٹھتا تھا لبِ خشک سے ہر قلب میں ہیجاں
لشکر میں کوئی ایک بھی دل تھا نہ مہرباں
کیا سوچتے؟ سینے تھے فقط روح کے زنداں
اک تیر نے اُس گل کو کیا خون میں غلطاں
اس طرح وہ نوخیز ہوا خاکِ بیاباں
ہاتھوں میں ہوئی لعل کی جب قطع رگِ جاں
تسلیم و رضا کا رہا اس وقت بھی عرفاں
اوجِ بشریّت کا ہے جو آخری امکاں
طاغوت کے گھیرے میں تھا بے خوف وہ انساں
اُس طرف تھا مغلوب کھڑا لشکرِ شیطاں
اِس سمت ظفر مند تھا اک بندۂِ یزداں
واں حرصِ بہیمانہ یہاں پیکرِ احساں
تھا آن کھڑا سامنے اسفل کے کہستاں
--۔ ۔--۔ ۔--۔ ۔--
صحرا کو کیا جس نے تبسم سے گلستاں
آغوش میں وہ پھول اٹھا لائے تھے ذیشاں
چہرہ وہ حسیں پیاس کی شدت سے تھا ویراں
اٹھتا تھا لبِ خشک سے ہر قلب میں ہیجاں
لشکر میں کوئی ایک بھی دل تھا نہ مہرباں
کیا سوچتے؟ سینے تھے فقط روح کے زنداں
اک تیر نے اُس گل کو کیا خون میں غلطاں
اس طرح وہ نوخیز ہوا خاکِ بیاباں
ہاتھوں میں ہوئی لعل کی جب قطع رگِ جاں
تسلیم و رضا کا رہا اس وقت بھی عرفاں
اوجِ بشریّت کا ہے جو آخری امکاں
طاغوت کے گھیرے میں تھا بے خوف وہ انساں
اُس طرف تھا مغلوب کھڑا لشکرِ شیطاں
اِس سمت ظفر مند تھا اک بندۂِ یزداں
واں حرصِ بہیمانہ یہاں پیکرِ احساں
تھا آن کھڑا سامنے اسفل کے کہستاں
--۔ ۔--۔ ۔--۔ ۔--