ارشد سعد ردولوی
محفلین
میں کوئی تقدیر کا ٹوٹا ستارا ہی سہی
کیا ہوا انسان تو ہوں، غم کا مارا ہی سہی
مال و ذر کی آرزو میں کیوں سکوں غارت کروں؟
ہو رہا ہے بس گزارا، تو گزارا ہی سہی
جانتا ہوں چاند کو چھونا کہاں آسان ہے
دسترس میں وہ نہیں اس کا نظارہ ہی سہی
میں بھلا کب تک تلاطم خیز موجوں سے لڑوں
تو نہیں تو دوسرا کوئی کنارا ہی سہی
کیا کریں افسوس آخر کیوں بہائیں اشک ہم
ٹوٹنا تھا دل کسی کا، دل ہمارا ہی سہی
کیوں دلِ برباد کو تنہائیوں کا خوف ہو
ہے محبت میں خسارا تو خسارا ہی سہی
سعؔد مل جائے دلِ مضطر کو تھوڑا سا قرار
اس کی آنکھوں کا کوئی ادنیٰ اشارا ہی سہی
ارشد سعؔد ردولوی
کیا ہوا انسان تو ہوں، غم کا مارا ہی سہی
مال و ذر کی آرزو میں کیوں سکوں غارت کروں؟
ہو رہا ہے بس گزارا، تو گزارا ہی سہی
جانتا ہوں چاند کو چھونا کہاں آسان ہے
دسترس میں وہ نہیں اس کا نظارہ ہی سہی
میں بھلا کب تک تلاطم خیز موجوں سے لڑوں
تو نہیں تو دوسرا کوئی کنارا ہی سہی
کیا کریں افسوس آخر کیوں بہائیں اشک ہم
ٹوٹنا تھا دل کسی کا، دل ہمارا ہی سہی
کیوں دلِ برباد کو تنہائیوں کا خوف ہو
ہے محبت میں خسارا تو خسارا ہی سہی
سعؔد مل جائے دلِ مضطر کو تھوڑا سا قرار
اس کی آنکھوں کا کوئی ادنیٰ اشارا ہی سہی
ارشد سعؔد ردولوی