مانی عباسی
محفلین
کی میں نے بھی محبت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
اسے مجھ سے عداوت تھی تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
نہیں معلوم تم کو کہ تمھارے آنے سے پہلے
مجھے شعروں سے نفرت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
نگاہوں کی نگاہوں سے ملاقاتیں جو ہوتی تھیں
وہ آنکھوں کی شرارت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
صداؤں سے دعاؤں سے حسینوں کی اداؤں سے
کبھی ملتی نہ راحت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
اسے لوٹا انا نے تھا مجھے لوٹا نصیبوں نے
لٹی اسکی بھی چاہت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
اسے مجھ سے عداوت تھی تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
نہیں معلوم تم کو کہ تمھارے آنے سے پہلے
مجھے شعروں سے نفرت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
نگاہوں کی نگاہوں سے ملاقاتیں جو ہوتی تھیں
وہ آنکھوں کی شرارت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
صداؤں سے دعاؤں سے حسینوں کی اداؤں سے
کبھی ملتی نہ راحت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
اسے لوٹا انا نے تھا مجھے لوٹا نصیبوں نے
لٹی اسکی بھی چاہت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
برستی بارشوں میں میں اسے جو یاد کرتا تھا
فقط دل کی حماقت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
تھا بستی میں رقیبانِ وفا کا اک الگ رتبہ
کبھی اپنی بھی شہرت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
پرانے دوست ملتے ہیں تو کہتے ہیں یہی مانی
تمہیں ہنسنے کی عادت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے