برائے تنقید و اصلاح.........

مانی عباسی

محفلین
کی میں نے بھی محبت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
اسے مجھ سے عداوت تھی تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے

نہیں معلوم تم کو کہ تمھارے آنے سے پہلے
مجھے شعروں سے نفرت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے

نگاہوں کی نگاہوں سے ملاقاتیں جو ہوتی تھیں
وہ آنکھوں کی شرارت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے

صداؤں سے دعاؤں سے حسینوں کی اداؤں سے
کبھی ملتی نہ راحت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے

اسے لوٹا انا نے تھا مجھے لوٹا نصیبوں نے
لٹی اسکی بھی چاہت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے

برستی بارشوں میں میں اسے جو یاد کرتا تھا
فقط دل کی حماقت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے

تھا بستی میں رقیبانِ وفا کا اک الگ رتبہ
کبھی اپنی بھی شہرت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے

پرانے دوست ملتے ہیں تو کہتے ہیں یہی مانی
تمہیں ہنسنے کی عادت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ دو چار الفاظ میں ترمیم کی گنجائش ہے۔
کی میں نے بھی محبت تھی جہاں تک یاد پڑتا ہے
پہلے لفظ ’کی‘ کی ی کا اسقاط اچھا نہیں۔

نہیں معلوم تم کو کہ تمھارے آنے سے پہلے
’کہ‘ بطور دو حرفی کم از کم میں قبول نہیں کرتا
مہیں معلوم ہی کب ہے
یا اسقسم کا کوئی دوسرا فقرہ استعمال کرکے دیکھو،

اسے لوٹا انا نے تھا مجھے لوٹا نصیبوں نے
انا نے اس کو لوٹا تھا
سے زیادہ رواں ہو جاتا ہے مصرع، ورنہ ‘انا نے‘ صوتی طور پر نا خوش گوار ہے
 
Top