برائے تنقید



احباب! السلام علیکم میں اس انجمن میں نیا نیا آیا ہوں ایک غزل برائے تنقید و اصلاح پیش ہے امید ہے آپ اپنی قیمتی آرا سے نوزایں گے


کبھی اپنا کبھی پرایا غم

روز چہرہ بدل کے آیا غم

خوب رو کے کبھی بہایا غم
مسکرا کے کبھی چھپایا غم


غمِ دوراں کا یہ مداوا
ہے
سو نہ ہم نے ترا بھلایا غم

پھر کسی یاد کی اک آہٹ نے
ایک سویا ہوا جگایا غم

غم نہیں ہے ہمیں کوئی غم کا
غم تو یہ ہے کہ یار لایا غم

پھول پر بیٹھی ایک تتلی نے
پھر سے دل میں ترا اٹھایا غم


جو مرے دل میں ہے چھپا عمران
شاعری میں کہاں وہ آیا غم
 
بہت خوب جناب. عمدہ کاوش ہے.
اساتذہ ان شاء اللہ رہنمائی فرمائیں گے.
میری طرف سے اصلاح تو نہیں صلاح ہے.
پھر کسی یاد کی اک آہٹ نے
ایک سویا ہوا جگایا غم
دوسرا مصرع اگر یوں ہو جائے
میرا سویا ہوا جگایا غم

خوش آمدید. :)
تعارف کے زمرہ میں جا کر تعارفی لڑی بھی بنا دیں.
 
بہت خوب جناب. عمدہ کاوش ہے.
اساتذہ ان شاء اللہ رہنمائی فرمائیں گے.
میری طرف سے اصلاح تو نہیں صلاح ہے.

دوسرا مصرع اگر یوں ہو جائے
میرا سویا ہوا جگایا غم

خوش آمدید. :)
تعارف کے زمرہ میں جا کر تعارفی لڑی بھی بنا دیں.

محمد تابش صاحب

بہت بہت شکریہ

مصرعے میں آپ کی تبدیلی بہت اچھی لگی

بہت بہت شکریہ

تعارف بھی پیش کرتا ہوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھی غزل ہے جناب! بزمِ سخن میں خوش آمدید!
غم نہیں ہے ہمیں کوئی غم کا
غم تو یہ ہے کہ یار لایا غم

پہلا مصرع یوں کر دیکھئے: غم نہیں ہے ہمیں کسی غم کا

تتلی والا شعر تو پُھر سے اُڑ گیا ہمارے سر سے۔ براہِ کرم اس کی تشریح فرمادیجئے ۔ یہ آپ کی اصلاح میں اور کلام کو نکھارنے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوگی ۔
 
جناب !بہت بہت شکریہ

شعر میں آپ کی تبدیلی بہت خوب ہے شکریہ

بس ذا مضمون بدل گیا ہے


تتلی والے شعر میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ

پھول اور تتلی کا ملن دیکھ کر مجھے اپنے محبوب کی یاد آئی

"کہیں پھول کو بھنورا چوم گیا

مرا دل مستی میں جھوم گیا"

کچھ اس طرح کی بات کرنا چاہتا تھا


کیا شعر اپنے معنی دینے میں ناکام رہا؟
اچھی غزل ہے جناب! بزمِ سخن میں خوش آمدید!


پہلا مصرع یوں کر دیکھئے: غم نہیں ہے ہمیں کسی غم کا

تتلی والا شعر تو پُھر سے اُڑ گیا ہمارے سر سے۔ براہِ کرم اس کی تشریح فرمادیجئے ۔ یہ آپ کی اصلاح میں اور کلام کو نکھارنے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوگی ۔
 
Top