مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام
ایک میراتھن غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں ۔ غزل کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں
قلم کی صورت اپنی جیب میں خنجر لگاتا ہوں
سنا ہے شاعری کے نام پر نشتر لگاتا ہوں
یا
کہا جاتا ہے میں لکھتا نہیں، نشتر لگاتا ہوں
ابل پڑتے ہیں بن پوچھے ہی دردِ ہجر کے چشمے
ترے جو وصل کا میں آنکھ میں منظر لگاتا ہوں
اُڑا دیتا ہے پھر قاتل نگاہوں سے وُہ، جب بھی مَیں
اٹھاکرسر،زمیں سے،اپنے کندھے پرلگاتا ہوں
اگر لے نام بھی کوئی بلند آواز میں اس کا
(کیا یہاں بلند کی د اور آواز کے آ کا وصال ہو سکتا ہے اور بلند کا وزن فعو پر ہو گا یا فعول پر؟)
بپا کرتا قیامت ہوں وہیں محشر لگاتا ہوں
میں اپنے پیار کی دیوار میں ہر اینٹ کے بدلے
تِرا چہرہ تِری آنکھیں مرے دلبر لگاتا ہوں
جو آتے راستے میں ہیں تمہارے پاؤں کے نیچے
سمجھ کے حجرِ اسود گھر میں وُہ پتھر لگاتا ہوں
وفا بکتی ، محبت بھی یہاں نیلام ہوتی ہے
بس اتنا پیار ملتا ہے میں جتنا زر لگاتا ہوں
جہاں ہیں بے وفا کرتے وفاداری پہ تقریریں
وہاں پر جا کے میں اس کے لیے منبر لگاتا ہوں
ختم ہوجاتی ہے گنتی،میں جب بھی روح پر اپنی
ترے بخشے ہوئے زخموں پہ جو نمبر لگاتا ہوں
زمیں پر ٹیکتا ہوں سب سے پہلے اپنی پیشانی
یا
خدا سے مانگتا ہوں صرف تجھ کو صرف تجھ کو ہی
میں جب بھی التجاؤں کاکبھی دفتر لگاتا ہوں
کبھی تو ٹوٹ کر آئے گا میرے خواب کا تارہ
نگاہیں آسماں کی ہی طرف شب بھر لگاتا ہوں
کہیں رکتی نہیں وُہ پھر خُدا کے عرش سے پہلے
کسی فریاد کو جب آنسوؤں کے پر لگاتا ہوں
اسے جو دیکھ کر ہو جاتی ہیں ساکت مری آنکھیں
سمجھتا ہے میں آنکھوں میں کوئی پتھر لگاتا ہوں
کبھی تو آ ئے گی آواز اس کی یا کبھی خوشبو
بہت سی کھڑکیاں گھر میں بہت سے در لگاتا ہوں
یہی ہیں میرے حج عمرے ،یہی میری عبادت ہے
تمہارے گھر کے میں یہ سوچ کے چکر لگاتا ہوں
کسی دن تھک کے آئے گا تُومیرے پاس ہی مقبول
میں اپنے ساتھ تیرا اس لیے بستر لگاتا ہوں
سر، الف عین دوبارہ ٹیگ کر رہا ہوں
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام
ایک میراتھن غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں ۔ غزل کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں
قلم کی صورت اپنی جیب میں خنجر لگاتا ہوں
سنا ہے شاعری کے نام پر نشتر لگاتا ہوں
یا
کہا جاتا ہے میں لکھتا نہیں، نشتر لگاتا ہوں
ابل پڑتے ہیں بن پوچھے ہی دردِ ہجر کے چشمے
ترے جو وصل کا میں آنکھ میں منظر لگاتا ہوں
اُڑا دیتا ہے پھر قاتل نگاہوں سے وُہ، جب بھی مَیں
اٹھاکرسر،زمیں سے،اپنے کندھے پرلگاتا ہوں
اگر لے نام بھی کوئی بلند آواز میں اس کا
(کیا یہاں بلند کی د اور آواز کے آ کا وصال ہو سکتا ہے اور بلند کا وزن فعو پر ہو گا یا فعول پر؟)
بپا کرتا قیامت ہوں وہیں محشر لگاتا ہوں
میں اپنے پیار کی دیوار میں ہر اینٹ کے بدلے
تِرا چہرہ تِری آنکھیں مرے دلبر لگاتا ہوں
جو آتے راستے میں ہیں تمہارے پاؤں کے نیچے
سمجھ کے حجرِ اسود گھر میں وُہ پتھر لگاتا ہوں
وفا بکتی ، محبت بھی یہاں نیلام ہوتی ہے
بس اتنا پیار ملتا ہے میں جتنا زر لگاتا ہوں
جہاں ہیں بے وفا کرتے وفاداری پہ تقریریں
وہاں پر جا کے میں اس کے لیے منبر لگاتا ہوں
ختم ہوجاتی ہے گنتی،میں جب بھی روح پر اپنی
ترے بخشے ہوئے زخموں پہ جو نمبر لگاتا ہوں
زمیں پر ٹیکتا ہوں سب سے پہلے اپنی پیشانی
یا
خدا سے مانگتا ہوں صرف تجھ کو صرف تجھ کو ہی
میں جب بھی التجاؤں کاکبھی دفتر لگاتا ہوں
کبھی تو ٹوٹ کر آئے گا میرے خواب کا تارہ
نگاہیں آسماں کی ہی طرف شب بھر لگاتا ہوں
کہیں رکتی نہیں وُہ پھر خُدا کے عرش سے پہلے
کسی فریاد کو جب آنسوؤں کے پر لگاتا ہوں
اسے جو دیکھ کر ہو جاتی ہیں ساکت مری آنکھیں
سمجھتا ہے میں آنکھوں میں کوئی پتھر لگاتا ہوں
کبھی تو آ ئے گی آواز اس کی یا کبھی خوشبو
بہت سی کھڑکیاں گھر میں بہت سے در لگاتا ہوں
یہی ہیں میرے حج عمرے ،یہی میری عبادت ہے
تمہارے گھر کے میں یہ سوچ کے چکر لگاتا ہوں
کسی دن تھک کے آئے گا تُومیرے پاس ہی مقبول
میں اپنے ساتھ تیرا اس لیے بستر لگاتا ہوں
سر، الف عین دوبارہ ٹیگ کر رہا ہوں
آخری تدوین: