برائے صلاح

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:

خاموش رہیں گے کب تک ہم الفت کی کوئی بات کریں
اظہار کریں ہم پیار کریں چل آج بیاں جذبات کریں



آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہم بانہوں میں بانہیں بھر کے ہم
یا
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہم اک دوجے کو بانہوں میں بھر لیں
اس ہجر کے سوکھے صحرا میں آوصل کی ہم برسات کریں

ہم دونوں عہد شباب میں ہیں تو حسن ہے میں ہوں شیدائی
یہ وقت نہ لوٹ کے آئے گا اب ضائع نہ ہم لمحات کریں

جو نہ ہو قسمت مییں ملتا نہیں جو قسمت میں ہو ٹلتا نہیں
ہم بخت بدلنے کی خاطر چاہے کوشش دن رات کریں۔

ہم دور رہیں گے کب تک یوں مجبور رہیں گے کب تک یوں
یا
اک دوجے کے بن کیسے ہم فرقت کے لمحے کاٹیں گے
آہجر کو وصل بنا ڈالیں پیدا ایسے حالات کریں

میثم ہم جس کے بندے ہیں وہ کب خالی لوٹاتا ہے
جب ہاتھ اٹھائیں اس کے ہاں اور پیش اپنی حاجات کریں ۔
 
برادرِ عزیز یاسر، آداب!

خاموش رہیں گے کب تک ہم الفت کی کوئی بات کریں
اظہار کریں ہم پیار کریں چل آج بیاں جذبات کریں
مطلع میں تھوڑی سی تبدیلی کردیں تو روانی بہتر ہوجائے گی، اور ابلاغ بھی بہتر ہوسکے گا۔
خاموش رہیں گے کب تک ہم، چل الفت کی کوئی بات کریں
ہم پیار کا اب اظہار کریں اور آج بیاں جذبات کریں

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہم بانہوں میں بانہیں بھر کے ہم
یا
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہم اک دوجے کو بانہوں میں بھر لیں
اس ہجر کے سوکھے صحرا میں آوصل کی ہم برسات کریں
پہلا مصرعہ بہتر ہے۔ ’’اک دوجے‘‘ فلمی سا اسلوب لگتا ہے اب۔
وصل کی برسات کا کیا مطلب ہے؟؟؟ کوئی بہتر گرہ لگانے کی کوشش کریں۔

ہم دونوں عہد شباب میں ہیں تو حسن ہے میں ہوں شیدائی
یہ وقت نہ لوٹ کے آئے گا اب ضائع نہ ہم لمحات کریں
دوسرا مصرعہ بحر میں نہیں ہے، ’’نہ‘‘ زائد ہے، وزن میں پورا نہیں آتا۔
مفہوم میں سمجھ نہیں سکا۔

جو نہ ہو قسمت مییں ملتا نہیں جو قسمت میں ہو ٹلتا نہیں
ہم بخت بدلنے کی خاطر چاہے کوشش دن رات کریں۔
پہلے مصرعے میں روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
قسمت میں نہ ہو جو ملتا نہیں، کاتب لکھا بھی ٹلتا نہیں
ہم بخت ۔۔۔ الخ

ہم دور رہیں گے کب تک یوں مجبور رہیں گے کب تک یوں
یا
اک دوجے کے بن کیسے ہم فرقت کے لمحے کاٹیں گے
آہجر کو وصل بنا ڈالیں پیدا ایسے حالات کریں
مصرعہ اولیٰ کے لئے پہلا متبادل بہتر ہے۔
دوسرے مصرعے میں روانی کی کمی ہے، بندش بھی اتنی چست نہیں، اس کو دوبارہ سوچیں۔

میثم ہم جس کے بندے ہیں وہ کب خالی لوٹاتا ہے
جب ہاتھ اٹھائیں اس کے ہاں اور پیش اپنی حاجات کریں ۔
’’اس کے ہاں‘‘ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا، ’’اس کے یہاں‘‘ کہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے، مگر اس سے مصرعے کی روانی کچھ متاثر ہوگی۔ دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
چل اس کے در پر جھک جائیں، اور پیش اپنی حاجات کریں۔

دعا گو،
راحلؔ۔
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
محترم راحل آداب!

اک بار پھر نظر کرم فرمائیئے گا ۔۔شکریہ۔



خاموش رہیں گے کب تک ہم, چل الفت کی کوئی بات کریں
اظہار کریں اب پیار کا اپنے , آج بیاں جذبات کریں

کانٹے تو زخمی کرتے ہیں, یہ پھول تو خوشبو دیتے ہیں
ہم دونوں عشق کے رستے پر ,چل پھولوں کی برسات کریں

ہم دونوں عہد شباب میں ہیں, یہ عمرِ جوانی عشق کی ہے
آغاز کریں چل عشق کا ہم, اور ضائع نہ اب لمحات کریں


قسمت میں نہ ہو جو ملتا نہیں, کاتب کا لکھا بھی ٹلتا نہیں
ہم بخت بدلنے کی خاطر, چاہے کوشش دن رات کریں۔

ہم دور رہیں گے کب تک یوں, مجبور رہیں گے کب تک یوں
چل وصل کا جشن منائیں ہم ,ظالم اس ہجر کو مات کریں

میثم ہم جس کے بندے ہیں, وہ کب خالی لوٹاتا ہے
چل اس کے در پر جھک جائیں ,اور پیش اپنی حاجات کریں ۔
 

الف عین

لائبریرین
چار چار اشعار میں ایک لفظ 'چل' سے وزن پورا کیا گیا ہے، یہ لفظ بھرتی کا بھی ہے، اور یوں بھی اچھا نہیں لگتا کہ بول چال میں بھی یہ معیاری زبان نہیں ہے۔ ایک آدھ جگہ تو شتر گربہ بھی پیدا ہو گیا ہے
 

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے گا محترم!


خاموش رہیں گے کب تک ہم, چل الفت کی کوئی بات کریں
اظہار کریں اب پیار کا اپنے , آج بیاں جذبات کریں

کانٹے تو زخمی کرتے ہیں, یہ پھول تو خوشبو دیتے ہیں
ہم دونوں عشق کے رستے پر ,آ پھولوں کی برسات کریں

ہم دونوں عہد شباب میں ہیں, یہ عمرِ جوانی عشق کی ہے
آغاز کریں اس عشق کا ہم, اور ضائع نہ اب لمحات کریں


قسمت میں نہ ہو جو ملتا نہیں, کاتب کا لکھا بھی ٹلتا نہیں
ہم بخت بدلنے کی خاطر, چاہے کوشش دن رات کریں۔

ہم دور رہیں گے کب تک یوں, مجبور رہیں گے کب تک یوں
اب وصل کا جشن منائیں ہم ,ظالم اس ہجر کو مات کریں

میثم ہم جس کے بندے ہیں, وہ کب خالی لوٹاتا ہے
جب اس کے در پر جھک جائیں ,اور پیش اپنی حاجات کریں ۔
 
خاموش رہیں گے کب تک ہم, چل الفت کی کوئی بات کریں
اظہار کریں اب پیار کا اپنے , آج بیاں جذبات کریں

اب اور پیار کے مابین تنافر مجھے پہلے بھی کھٹک رہا تھا، اب بھی کھٹک رہا ہے.

کانٹے تو زخمی کرتے ہیں, یہ پھول تو خوشبو دیتے ہیں
ہم دونوں عشق کے رستے پر ,آ پھولوں کی برسات کریں
"تو"، بطور حرف جزا، کو دوحرفی باندھنا اساتذہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے.
دوسری بات یہ ہے کہ "یہ" پھول کون سے پھول؟ یعنی "یہ" سے کس جانب اشارہ کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہاں مقصد صرف وزن پورا کرنا ہے. طویل بحر میں بھرتی کے الفاظ سے بچنا ذرا مشکل ہوتا ہے، مگر اتنے سامنے کے حشوات سے تو بہرحال اجتناب کیا جاسکتا ہے.

ہم دونوں عہد شباب میں ہیں, یہ عمرِ جوانی عشق کی ہے
آغاز کریں اس عشق کا ہم, اور ضائع نہ اب لمحات کریں
جب عہد شباب کہہ دیا تو عمرِ جوانی کے تذکرے کی ضرورت نہیں. ویسے بھی عمر جوانی کوئی خاص ترکیب نہیں لگتی.
دوسرا مصرعہ اب بھی بحر میں نہیں، ضائع کے بعد "نہ" وزن میں نہیں آرہا.

ہم دور رہیں گے کب تک یوں, مجبور رہیں گے کب تک یوں
اب وصل کا جشن منائیں ہم ,ظالم اس ہجر کو مات کریں
وصل جب ہوگا تب ہی اس کا جشن منایا جاسکتا ہے!
"ظالم اس ہجر کو" غیر ضروری تعقید ہے جو روزمرہ کے حساب سے بھی ٹھیک نہی، "اس ظالم ہجر کو... " بھی تو کہا جاسکتا ہے!
علاوہ ازیں مات کریں کہنا بھی غلط ہے. مات ہوتی ہے یا دی جاتی ہے، کی نہیں جاتی.

میثم ہم جس کے بندے ہیں, وہ کب خالی لوٹاتا ہے
جب اس کے در پر جھک جائیں ,اور پیش اپنی حاجات کریں ۔
دوسرے مصرعے کو یوں کر لیں.
جب اس کے در پر لوگ جھکیں اور پیش اپنی حاجات کریں.
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
محترم اب دیکھئے گا۔۔

خاموش رہیں گے کب تک ہم, چل الفت کی کوئی بات کریں
ہم پیار کا اب اظہار کریں,اور آج بیاں جذبات کریں

کانٹے زخمی کر دیتے ہیں, گل ہم کو خوشبو دیتےہیں
ہم دونوں عشق کے رستے پر ,آ پھولوں کی برسات کریں

ہم دونوں عہد شباب میں ہیں, تو حسن ہے میں ہو شیدائی
آغازِ محبت کر لیں اب, نہ ہی اور ضائع لمحات کریں


قسمت میں نہ ہو جو ملتا نہیں, کاتب کا لکھا بھی ٹلتا نہیں
ہم بخت بدلنے کی خاطر, چاہے کوشش دن رات کریں۔

ہم دور رہیں گے کب تک یوں, مجبور رہیں گے کب تک یوں
پل ہم کو میسر وصل کے ہوں, پیدا ایسے حالات کریں ۔

دنیا کے کونے کونے میں, ظلمت کا دامن پھیلا ہے
دیپک کو جلا کر دنیا کا, ہم ختم سبھی ظلمات کریں ۔
یا
دیپک کو جلا کر دنیا میں ۔

میثم ہم جس کے بندے ہیں, وہ کب خالی لوٹاتا ہے
جب اس کے در پر لوگ جھکیں ,اور پیش اپنی حاجات کریں ۔
 

الف عین

لائبریرین
خاموش رہیں گے کب تک ہم, چل الفت کی کوئی بات کریں
ہم پیار کا اب اظہار کریں,اور آج بیاں جذبات کریں
....چل' بھرتی کا لفظ ہے، آ کی طرح۔ جیسا اگلے شعر میں ہے. اس کے بغیر بھی بحر درست ہے بلکہ کوئی بطور فعلن زیادہ فصیح اور رواں ہے

کانٹے زخمی کر دیتے ہیں, گل ہم کو خوشبو دیتےہیں
ہم دونوں عشق کے رستے پر ,آ پھولوں کی برسات کریں
... آ کا ذکر ہو چکا ہے.. پھولوں کی اک برسات کریں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مفہوم ہی خاص نہیں

ہم دونوں عہد شباب میں ہیں, تو حسن ہے میں ہو شیدائی
آغازِ محبت کر لیں اب, نہ ہی اور ضائع لمحات کریں
میں ہو؟ ممکن ہے ٹائپو ہو!
اُر تقطیع ہوتا ہے 'اور' دوسرے مصرعے میں
بیکار نہ یہ لمحات کیا جا سکتا ہے
دنیا کے کونے کونے میں, ظلمت کا دامن پھیلا ہے
دیپک کو جلا کر دنیا میں , ہم ختم سبھی ظلمات کریں
تکنیکی طور پر درست، لیکن مفہوم ؟ دیپک کس قسم کا؟
 

یاسر علی

محفلین
سر یہ شعر اب دیکھئے گا۔
شکریہ
دنیا کے کونے کونے میں ,ظلمت کا دامن پھیلا ہے
ہم حق کا دیپ جلا کر سب, دنیا کا رفع ظلمات کریں۔
 
Top