برائے صلاح

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی



کسی شوخ سے دل لگا کر چلے ہیں۔
محبت کی ہم ابتدا کر چلے ہیں۔

وہ خیرات دیں یا نہ دیں ہم کو لیکن!
انہیں مفت میں ہم دعا کر چلے ہیں۔

تبسّم پہ ان کے سبھی زندگی کی
محبت کی دولت لٹا کر چلے ہیں۔

بجھاتے بجھاتے زمانہ لگے گا
کہ ہم دیپ ایسے جلا کر چلے ہیں۔

گلی خوشبوؤں سے مزیّن رہے گی
لے ہم پھول ایسے کھلا کر چلے ہیں۔

انہیں یاد اک دن بہت آئیں گے ہم
جو چنچل ہمیں اب بھلا کر چلے ہیں۔

شَب و روز راحت میسّر نہیں ہے
ہم زخمِ جگر ایسے کھا کر چلے ہیں۔

چرا اور کوئی نہ ان کو سکے گا
انہیں دل میں میثم بسا کر چلے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کسی شوخ سے دل لگا کر چلے ہیں۔
محبت کی ہم ابتدا کر چلے ہیں۔
.. درست

وہ خیرات دیں یا نہ دیں ہم کو لیکن!
انہیں مفت میں ہم دعا کر چلے ہیں۔
... درست

تبسّم پہ ان کے سبھی زندگی کی
محبت کی دولت لٹا کر چلے ہیں۔
... 'سبھی زندگی کی محبت کی' عجیب سا ہے،
تبسم ہی ان کا ہے ایسا کہ ہم بھی
سبھی اپنی دولت....
کر سکتے ہو

بجھاتے بجھاتے زمانہ لگے گا
کہ ہم دیپ ایسے جلا کر چلے ہیں۔
.. ٹھیک

گلی خوشبوؤں سے مزیّن رہے گی
لے ہم پھول ایسے کھلا کر چلے ہیں۔
... لے؟ بھرتی کے الفاظ سے بچو
مگر مفہوم؟

انہیں یاد اک دن بہت آئیں گے ہم
جو چنچل ہمیں اب بھلا کر چلے ہیں۔
... چنچل بے معنی ہے، شعر نکال دو

شَب و روز راحت میسّر نہیں ہے
ہم زخمِ جگر ایسے کھا کر چلے ہیں۔
... دوسرا مصرع بحر سے خارج

چرا اور کوئی نہ ان کو سکے گا
انہیں دل میں میثم بسا کر چلے ہیں۔
.. پہلا مصرع مجہول سا ہے، ترتیب بدل دیں
 

یاسر علی

محفلین
محترم اب دیکھئے گا۔۔

گلی خوشبوؤں سے مزین رہے گی
گُلُ لا لہ ایسے کھلا کر چلے ہیں۔

انہیں یاد اک دن بہت آئیں گے ہم
گُلِ رو جو ہم کو بھلا کر چلے ہیں۔

شب و روز راحت میسر نہیں ہے

اس کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آئی یہ کس طرح بے وزن ہے۔
(ہم زخمِ جگر ایسے کھا کر چلے ہیں۔)
ہم زخم ِجگر ایسا کھا کر چلے ہیں۔
یا
ہم زخمِ رسا ایسا کھا کر چلے ہیں۔
یا
کہ ہم زخم ایسے ہی کھا کر چلے ہیں۔

نہ ان کو چرا اور کوئی سکے گا۔
یا
سگے گا نہ ان کو چرا اور کوئی
یا
چرا اور کوئی سگے گا نہ ان کو۔

...
 
اس کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آئی یہ کس طرح بے وزن ہے۔
(ہم زخمِ جگر ایسے کھا کر چلے ہیں۔)
ہم زخم ِجگر ایسا کھا کر چلے ہیں۔
یا
ہم زخمِ رسا ایسا کھا کر چلے ہیں۔
یا
کہ ہم زخم ایسے ہی کھا کر چلے ہیں۔

ان میں سے تیسرا مصرعہ ہی بحر میں ہے۔
آپ کی غزل کی بحر فعولن فعولن فعولن فعولن ہے۔
اس وزن میں کوئی بھی دو حرفی آواز مصرعے کے شروع میں آ ہی نہیں سکتی۔
ف عو لن ۔۔۔ ہم زخ مے
یہاں کوئی چھوٹی یک حرفی آواز ہی وزن میں آسکتی ہے، جیسے تیسرے متبادل میں آپ نے کہ باندھا ہے۔
 

یاسر علی

محفلین
شکریہ محترم راحل صاحب!
لیکن کئی شاعر "ہم" کو یک حرفی بھی باندھتے ہیں۔۔
اور بقیہ اشعار بھی دیکھ دیجیئے ۔۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلا شعر
کچھ ایسے ہی گل ہم کھلا...
بہتر ہو گا
دوسرے شعر میں دوسرا مصرع پھر فعلن ہو گیا فعولن کی جگہ۔ وہ گل رو... کیا جا سکتا ہے
چرا سکے گا ایک ساتھ ہی آنے سے رواں ہے، اس کی ترتیب میں کچھ اور الفاظ بحر پورا کرنے کی غرض سے جوڑ دینا اچھا نہیں لگتا، اسے نکال ہی دیں
 
Top