برائے صلاح

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


کالج
وہ اب بھی یاد ہے مجھ کو
جو پہلا دن تھا کالج کا
جماعت روم میں سارے
بڑے مایوس بیٹھے تھے
نہ کوئی جانتا تک تھا
نہ کوئی دیکھتا تک تھا
نہ کوئی بات کرتا تھا
سبھی چہرے تھے انجانے
مگر پھر رفتہ رفتہ سے
سبھی کرنے لگے باتیں
فقط باتوں ہی باتوں میں
تعارف ہو گیا سب سے
ہوئی پھر دوستی سب سے
تو گھل مل ہم گئے سارے
لگے سب شوخیاں کرنے
جی بھر کے مستیاں کرنے
دلوں میں بھر گئی چاہت
بہت ہی تھے حسیں وہ پل

مگر یہ وقت ظالم کب
کسی جا پر ٹھہرتا ہے۔

بچھڑنے کا سمے بھی اب
اچانک آن پہنچا ہے
ہمارا تین سالوں کا
لگا ہے ٹوٹنے رشتہ
یہ رشتہ ٹوٹ جانے میں
ذرا سی دیر باقی ہے

اگر تھا جسم سے رشتہ
یہ پھر تو ٹوٹ جائے گا
اگر دل کا یہ ر شتہ تھا
یہ رشتہ اب بھی باقی ہے
رہے گا عمر بھر باقی
رہے گی زندگی جب تک۔
کیونکہ جسم مرتے ہیں
کبھی رشتے نہیں مرتے.
سنو رشتے نہیں مرتے ۔۔
 
آخری تدوین:
مرکزی نکات درونِ اقتباس ہی لکھ رہا ہوں اپنی سہولت کے لئے.

کالج
وہ اب بھی یاد ہے مجھ کو
بندش چست نہیں ہے، "وہ" کی ضرورت نہیں یہاں.
جو پہلا دن تھا کالج کا
یہ مصرعہ بھی بہتر ہوسکتا ہے
جماعت روم میں سارے
"جماعت روم"!!! :shout::shout::shout:
ہائیں!!! یہ کیا غضب کر رہے ہو لڑکے! جماعت روم کیا شے ہے؟؟؟
یا تو کلاس روم کہو یا کمرہِ جماعت.
"سارے" بھی اس محل پر فصاحت کے خلاف ہے، یہاں سبھی ہونا چاہیئے.

بڑے مایوس بیٹھے تھے
کالج کے پہلے دن گھبراہٹ اور پریشانی ہونا تو سمجھ آتا ہے، مایوسی کیوں ہو گی کسی کو؟؟؟
نہ کوئی جانتا تک تھا
کس کو؟؟؟ اشارہ تو نہیں ملتا کوئی بھی.
نہ کوئی دیکھتا تک تھا
نہ کوئی بات کرتا تھا
سبھی چہرے تھے انجانے
مگر پھر رفتہ رفتہ سے
"سے" یہاں زائد ہے اور خلاف محاورہ بھی
سبھی کرنے لگے باتیں
فقط باتوں ہی باتوں میں
یہاں "فقط" معنوی اعتبار سے درست نہیں کیونکہ یہاں "اور پھر" سے ہی مفہوم ٹھیک طرح ادا ہو سکتا ہے
تعارف ہو گیا سب سے
ہوئی پھر دوستی سب سے
تو گھل مل ہم گئے سارے
"مل ہم گئے" غیر ضروری تعقید کے زمرے میں آئے، یہ ترتیب فطری نہیں ہے.
لگے سب شوخیاں کرنے
جی بھر کے مستیاں کرنے
"جی" کی ی کا اسقاط بہت ہی ناگوار محسوس ہوتا ہے یہان
دلوں میں بھر گئی چاہت
بہت ہی تھے حسیں وہ پل

مگر یہ وقت ظالم کب
کسی جا پر ٹھہرتا ہے۔

بچھڑنے کا سمے بھی اب
اچانک آن پہنچا ہے
ہمارا تین سالوں کا
لگا ہے ٹوٹنے رشتہ
یہ ترتیب بھی ٹھیک نہیں
یہ رشتہ ٹوٹ جانے میں
ذرا سی دیر باقی ہے

اگر تھا جسم سے رشتہ
یہ پھر تو ٹوٹ جائے گا
اگر دل کا یہ ر شتہ تھا
یہ رشتہ اب بھی باقی ہے
رہے گا عمر بھر باقی
رہے گی زندگی جب تک۔
کیونکہ جسم مرتے ہیں
"کیونکہ" کی تقطیع درست نہیں کی آپ نے. یائے مخلوط کو وزن میں شمار نہیں کیا جاتا. "کیوں" کو محض "کُو" تقطیع کرتے ہیں.
کبھی رشتے نہیں مرتے.
اوپر آپ کہہ چکے ہیں جسم کے رشتے تو ٹوٹ جاتے ہیں، پھر یہاں مطلق رشتوں کے لئے یہ کہنا کہ وہ مرتے نہیں، ایک تضاد پیدا کر رہا ہے.
آخری مصرعے کی ضرورت نہیں، اسے نکال دیں.

سنو رشتے نہیں مرتے ۔۔

ابھی تک یاد ہے مجھ کو
مرا کالج کا پہلا دن
میں جب پہنچا وہاں، دیکھا
سبھی حیراں پریشاں ہیں
عجب سی تھی جھجک سب میں
نہ کوئی بات کرتا تھا
نہ کوئی مسکراتا تھا
سبھی چہرے تھے انجانے
سبھی لگتے تھے بیگانے
مگر آہستہ آہستہ
سبھی کرنے لگے باتیں
تعارف ہو گیا سب سے
ہوئی پھر دوستی سب سے
گزارا وقت پھر ہم نے
کبھی شوخی، شرارت میں
کبھی دن بھر متانت میں
تھا ہر اک پل حسیں کتنا
مرے یاروں کی سنگت میں

مگر یہ وقت ظالم کب کسی جا پر ٹھہرتا ہے۔
بچھڑنے کا سمے یارو بالآخر آن پہنچا ہے
ہمارا تین سالوں کا یہ رشتہ ٹوٹ جانے میں
ذرا سی دیر باقی ہے

مرے یارو، مگر ٹہرو، ذرا سوچو
ہو دل کو راہ گر دل سے
تو رشتے سانس رک جانے سے بھی ٹوٹا نہیں کرتے
بھلے ہی جسم مر جائے
کبھی رشتے نہیں مرتے.
 

یاسر علی

محفلین
بہت بہت شکریہ راحل صاحب!
اصلاح و راہنمائی فرمانے کا۔

بھلے ہی جسم مر جائیں


کیا زیادہ درست نہیں رہے کا ۔
بہ نسبت بھلے ہی جسم مر جائے۔
 
Top