برائے صلاح

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:

ہے دولت کی دنیا نظاروں کی دنیا
نہیں اب رہی یارو! یاروں کی دنیا

لباسِ فقیری میں ہی آ کے یارو
ہمیں مل گئی چاند تاروں کی دنیا

صلے کی تمنّا نہ ہو بندگی میں
تو پھر ہے خدا کے یہ پیاروں کی دنیا

اٹھاتے ہیں ہم دردِ ہجراں کی لذّت
بہت ہے عجب دل فگاروں کی دنیا

کوئی ایک اہلِ نظر ہی بہت ہے
نہیں چاہئے یہ ہزاروں کی دنیا

دکھاوے کی گر پارسائی ہو میثم
تو اچھی ہے پھر بادہ خواروں کی دنیا
 
یاسر میاں، آداب!

ہے دولت کی دنیا نظاروں کی دنیا
نہیں اب رہی یارو! یاروں کی دنیا
دولت اور نظاروں کا جوڑ سمجھ نہیں آیا۔
دوسرے مصرعے میں یارو کی تکرار مناسب نہیں لگتی۔ مطلع دوبارہ کہیں۔

لباسِ فقیری میں ہی آ کے یارو
ہمیں مل گئی چاند تاروں کی دنیا
لباس میں آکر کہنا ٹھیک نہیں لگتا۔
لباسِ فقیری پہن کر ہی یارو
ملی تھی ہمیں چاند تاروں کی دنیا

صلے کی تمنّا نہ ہو بندگی میں
تو پھر ہے خدا کے یہ پیاروں کی دنیا
یہ شعر بھی عجزِ بیان کا شکار معلوم ہوتا ہے۔

اٹھاتے ہیں ہم دردِ ہجراں کی لذّت
بہت ہے عجب دل فگاروں کی دنیا
بہت کے ساتھ عجب نہیں عجیب آئے گا۔

کوئی ایک اہلِ نظر ہی بہت ہے
نہیں چاہئے یہ ہزاروں کی دنیا
مفہوم؟؟؟ ہزاروں ’’کیا‘‘ نہیں درکار؟؟؟ اور کس کو نہیں درکار؟؟؟

دکھاوے کی گر پارسائی ہو میثم
تو اچھی ہے پھر بادہ خواروں کی دنیا
ٹھیک۔
 

یاسر علی

محفلین
جناب آداب !

فیض احمد فیض
کے کلام میں سے۔

چشمِ میگوں ذرا ادھر کردے
دستِ قدرت کو بے اثر کر دے۔


جوشِ وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاکِ دامن کو تا جگر کر دے۔
جناب یہ بتائیے گا فیض صاحب کس سے مخاطب ہیں۔
ضرور راہنمائی فرمائیے گا۔
 
جناب آداب !

فیض احمد فیض
کے کلام میں سے۔

چشمِ میگوں ذرا ادھر کردے
دستِ قدرت کو بے اثر کر دے۔


جوشِ وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاکِ دامن کو تا جگر کر دے۔
جناب یہ بتائیے گا فیض صاحب کس سے مخاطب ہیں۔
ضرور راہنمائی فرمائیے گا۔
اس سوال کا زیر نظر لڑی سے کیا تعلق ہے؟ اگر ان اشعار کی تشریح مطلوب ہے تو اس کے لئے شاید یہ زمرہ موزوں نہیں۔
 

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے گا جناب!


سہانی ،فروزاں، بہاروں کی دنیا
بہت مخلصانہ ہے، یاروں کی دنیا

لباسِ فقیری پہن کر ہی یارو!
ملی تھی، ہمیں چاند تاروں کی دنیا

چبھیں کانٹے جن کو انہی سے جا پوچھو
یا
چبھیں جن کو کانٹے انہی سے جا پوچھو
کہ ہوتی ہے کیا خار داروں کی دنیا

کھلیں امن کے گل لبوں پر، دعا ہے
ہماری بنے لالہ زاروں کی دنیا

کبھی دوست غم بانٹتے تھے، مگر اب
میسر نہیں، غم گساروں کی دنیا۔

اٹھاتے ہیں ہم دردِ ہجراں کی لذّت
بڑی ہے عجب دل فگاروں کی دنیا

ہمیں ایک اہلِ نظر ہی بہت ہے
نہیں چاہئے ماہ پاروں کی دنیا

دکھاوے کی گر پارسائی ہو میثم
تو اچھی ہے پھر بادہ خواروں کی دنیا
 

الف عین

لائبریرین
میرا مشورہ ہے کہ اس غزل پر محنت نہیں کی جائے۔ اس کو مشق کے لئے سمجھ کر یوں ہی چھوڑ دو۔ ردیف ہی ایسی نہیں!
 
Top