اسد امین
محفلین
تلاطم خیز ہے سیلِ روانِ آب، اے ساقی!
تجھے معلوم ہے میری شرابِ ناب، اے ساقی!
جہاں میں بے یقیں مارے ہیں پھرتے آب و گِل اپنے
ملے مجھ کو متاعِ دانشِ نایاب ، اے ساقی!
دلِ پژمردہ و بے حال ہے محتاجِ آبِ زر
خبر اِس کو نہیں، زر ہے فصیلِ تاب،اے ساقی!
نہیں عہدِ کہن کے بربط و تار و رباب و چنگ
زمانہ ہو گیا نہ نامحرمِ مضراب ، اے ساقی!
نہیں کھلتا یہ مجھ پر کیا ہے تیرا دہرِ ذومعنین؟
پریشاں رکھتا ہے مجھ کو یہی گرداب، اے ساقی!
نہیں ہے کس کو یہ حسرت، کمالِ اوج پانے کی
مگر اب تک ترا بندہ تہی محراب ، اے ساقی!
تجھے معلوم ہے میری شرابِ ناب، اے ساقی!
جہاں میں بے یقیں مارے ہیں پھرتے آب و گِل اپنے
ملے مجھ کو متاعِ دانشِ نایاب ، اے ساقی!
دلِ پژمردہ و بے حال ہے محتاجِ آبِ زر
خبر اِس کو نہیں، زر ہے فصیلِ تاب،اے ساقی!
نہیں عہدِ کہن کے بربط و تار و رباب و چنگ
زمانہ ہو گیا نہ نامحرمِ مضراب ، اے ساقی!
نہیں کھلتا یہ مجھ پر کیا ہے تیرا دہرِ ذومعنین؟
پریشاں رکھتا ہے مجھ کو یہی گرداب، اے ساقی!
نہیں ہے کس کو یہ حسرت، کمالِ اوج پانے کی
مگر اب تک ترا بندہ تہی محراب ، اے ساقی!