ذوالقرنین
لائبریرین
براہوی ادب سے ماخوذ:
محقق: سوسن براہوی
ترجمہ و ترتیب: ذوالقرنین
پروف ریڈنگ: الف عین
ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پراس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔ اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ و پیار سےاس کی پرورش ہو رہی تھی۔چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہو گئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔
بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔
"اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجئے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچی خوشحال اور آسودہ ہوگی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب ہوگی، اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔"
ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچی کے واسطے تھما دئیے۔ بچی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جبکہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔
جب بادشاہ اپنے سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا کہ آپ کے جانے کے بعد بچی کی ولادت ہوئی اور آپ کے حکم کے بموجب اسے ہلاک کی گئی۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔
دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور ملکہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر اس کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چونکہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالی۔ خوبصورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح دِکھنے لگی۔
ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی ۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھیں۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟" وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔" بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔" چونکہ حقیقت کا کسی کو پتا نہیں تھا۔ اس لیے دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ یا اللہ! اب کیا کروں؟ اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا " میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نا ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔"
بادشاہ خود تو نہیں آیا لیکن دائی کے گھر رشتے کے لیے بہت سے بندے بھیجے۔ سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ دیے، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دے دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔
سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب کوٹ کوٹ کر پیٹنا شروع کیا۔ سپائیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔ بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔" بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔"
اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصے میں آ گیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔"
براہوی لوک داستان
زیبو
محقق: سوسن براہوی
ترجمہ و ترتیب: ذوالقرنین
پروف ریڈنگ: الف عین
ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پراس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔ اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ و پیار سےاس کی پرورش ہو رہی تھی۔چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہو گئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔
بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔
"اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجئے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچی خوشحال اور آسودہ ہوگی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب ہوگی، اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔"
ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچی کے واسطے تھما دئیے۔ بچی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جبکہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔
جب بادشاہ اپنے سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا کہ آپ کے جانے کے بعد بچی کی ولادت ہوئی اور آپ کے حکم کے بموجب اسے ہلاک کی گئی۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔
دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور ملکہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر اس کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چونکہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالی۔ خوبصورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح دِکھنے لگی۔
ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی ۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھیں۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟" وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔" بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔" چونکہ حقیقت کا کسی کو پتا نہیں تھا۔ اس لیے دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ یا اللہ! اب کیا کروں؟ اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا " میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نا ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔"
بادشاہ خود تو نہیں آیا لیکن دائی کے گھر رشتے کے لیے بہت سے بندے بھیجے۔ سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ دیے، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دے دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔
سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب کوٹ کوٹ کر پیٹنا شروع کیا۔ سپائیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔ بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔" بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔"
اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصے میں آ گیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔"