براہِ اصلاح و تنقید

تڑپے دل مرغِ گرفتار کی صورت
نظر آئے نہ کہیں یار کی صورت

بکنے والے کو تو ہے مال سے مطلب
کب وہ دیکھے ہے خریدار کی صورت

کس کو آئے گا یقیں،بات کا میری
دیکھ کے میرے ستمگار کی صورت

تم عداوت کی کوئی راہ نکالو
ہم نکالیں گے کوئی پیار کی صورت

کہ خزاں دیدہ کوئی پھول ہو جیسے
ہجر میں یوں ترے بیمار کی صورت

تیری آنکھوں میں نظر آتی ہے ہم کو
کوئی انکار میں اقرار کی صورت

غمِ جاناں ترے ممنون رہیں گے
ہم کسی سچے نمک خوار کی صورت

بخش دے گا وہ مری ساری خطائیں
دیکھ کے میرے طرفدار کی صورت

چوٹ لگتی ہے نئی جب کوئی دل پر
آہ بھرتے ہیں ہم اشعار کی صورت

ہم منا پائے نہیں عید کی خوشیاں
ہم نے دیکھی ہی نہیں یار کی صورت
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلی بات، یہ تجرباتی بحر ہے جس کو ماہرین کے لیے چھوڑ دینا چاہیے فاعلاتن فعلاتن فعلن مستعمل بحر ہے فاعلاتن فعلاتن فعلاتن نہیں۔
بہر حال اچھی کوشش ہے۔

تڑپے دل مرغِ گرفتار کی صورت
تڑپے کی ے کا گرنا اچھا نہیں مصرع بدل دیں

دیکھ کے میرے ستمگار کی صورت
ستم گار اچھا نہیں،

دیکھ کے میرے طرفدار کی صورت
مفہوم کے اعتبار سے بھی شعر پسند نہیں آیا، تکنیکی طور پر 'دیکھ کر' بہتر ہے بہ نسبت 'دیکھ کے'
باقی درست ہے
 
پہلی بات، یہ تجرباتی بحر ہے جس کو ماہرین کے لیے چھوڑ دینا چاہیے فاعلاتن فعلاتن فعلن مستعمل بحر ہے فاعلاتن فعلاتن فعلاتن نہیں۔
بہر حال اچھی کوشش ہے۔

تڑپے دل مرغِ گرفتار کی صورت
تڑپے کی ے کا گرنا اچھا نہیں مصرع بدل دیں

دیکھ کے میرے ستمگار کی صورت
ستم گار اچھا نہیں،

دیکھ کے میرے طرفدار کی صورت
مفہوم کے اعتبار سے بھی شعر پسند نہیں آیا، تکنیکی طور پر 'دیکھ کر' بہتر ہے بہ نسبت 'دیکھ کے'
باقی درست ہے
بہت بہت شکریہ ! بہت نوازش
آپ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
منت پذیر!
 
Top