براہ اصلاح، غزل ، احباب توجہ فرمائیں

بہت جلدی میں‌لکھی گئی ایک تازہ غزل پیش خدمت ہے براہ اصلاح، احباب دل کھول کر اسکو ٹھیک کریں تو بڑی عنایت ہوگی۔

غیر کی صحبت میں اپنے بے وفا پھر مل گئے
ہم گریزاں جن سے تھے وہ آشنا پھر مل گئے

وصل کی ساری امیدیں خاک میں جب مل چکیں
دل کے گوشے میں وہ چنچل ، دلربا پھر مل گئے

شام کو جب ہر افق پر دھندلکے چھانے لگے
ملگجے ماحول میں وہ غم زدہ پھر مل گئے

اجنبی رستوں پہ ہم نے جب کبھی ڈھونڈی وفا
وہ نہ مل پائی مگر اہلِ جفا پھر مل گئے

جن رقیبوں کو بھلانے میں بہت عرصہ لگا
واہ ری قسمت، ترے وہ مبتلا پھر مل گئے

جب کبھی ہم زیست کے رستے میں لُٹنے کو چلے
درد کے کوچے میں اپنے کم نما پھر مل گئے

بھول جانے کی قسم کھا کر نہ جانے کیوں انیس
مہرباں ہو کر ہمیں بہرِ خدا پھر مل گئے


 

مغزل

محفلین
واہ جی ۔ واہ انیس صاحب رسید حاضر ہے ، باقی بابا جانی اور وارث صاحب ہی فرمائیں گے
 

الف عین

لائبریرین
غیر کی صحبت میں اپنے بے وفا پھر مل گئے
ہم گریزاں جن سے تھے وہ آشنا پھر مل گئے

گریزاں بھی ہو اور محبوب کو ’اپنے بے وفا‘ اور ’آشنا‘ بھی کہا جائے۔ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ’اپنے بے وفا‘ کو کم از کم بدل دو۔ بلکہ قافئے الٹ دو تو بہتر ہو جائے۔

غیر کی صحبت میں اپنے آشنا پھر مل گئے
ہم گریزاں جن سے تھے وہ بے وفا پھر مل گئے


وصل کی ساری امیدیں خاک میں جب مل چکیں
دل کے گوشے میں وہ چنچل ، دلربا پھر مل گئے

’چنچل دلربا‘ میں کچھ ابتذال ہے۔
اس کی جگہ ’اہلِ جفا‘ کا قافیہ لایا جا سکتا ہے۔
دل کے اک گوشے میں وہ اہلِ جفا۔۔۔

شام کو جب ہر افق پر دھندلکے چھانے لگے
ملگجے ماحول میں وہ غم زدہ پھر مل گئے

’دھندلکے‘ کا تلفظ یہاں فاعلن نظم ہوا ہے۔ یہ بر وزن فعولن ہوتا ہے۔ دال بالفتح
ہے، یعنی ’دھن دَل کے‘ (تم نے کیا ہے ’دھند لَ کے)۔ اس کے علاوہ ’ہر افق‘ کی ضرورت؟
شام کو جب ہر طرف تاریکیاں چھانے لگیں
میں کیا حرج ہے؟
ویسے ’ملگجے‘ کے ساتھ اگر شام کا ’جھٹپٹا‘ استعمال کیا جائے تو شعر میں لطافت پیدا ہو جائے۔ میرا ایسا خیال ہے۔


اجنبی رستوں پہ ہم نے جب کبھی ڈھونڈی وفا
وہ نہ مل پائی مگر اہلِ جفا پھر مل گئے

’اہلِ جفا‘ کا قافیہ اوپر ہی استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہاں بہتر ہے،

جن رقیبوں کو بھلانے میں بہت عرصہ لگا
واہ ری قسمت، ترے وہ مبتلا پھر مل گئے

دوسرا مصرع واضح نہیں۔ ’واہ ری قسمت‘ کیوں۔ اور ’ترے وہ مبتلا‘ سے کیا مطلب ہے۔ یہ شعر میرے خیال میں نکال ہی دو۔

جب کبھی ہم زیست کے رستے میں لُٹنے کو چلے
درد کے کوچے میں اپنے کم نما پھر مل گئے

"کم نما‘ کا قافیہ پسند آیا۔ (اگرچہ ناصر کہہ چکا ہے:
کیوں نہ اس کم نما کو چاند کہوں
چاند کو دیکھ کر جو یاد آئے)۔
لیکن پہلا مصرع اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ اور زیست کے رستوں میں درد کا کوچہ آ گیا؟
کم نما سے اس کا تعلق؟ یہ شعر بھی پھر کہنے کی ضرورت ہے۔


بھول جانے کی قسم کھا کر نہ جانے کیوں انیس
مہرباں ہو کر ہمیں بہرِ خدا پھر مل گئے
’بہرِ خدا‘ کی ترکیب سمجھ میں نہیں آئی۔ قسم ہم نے کھائی تھی یا محبوب نے؟ شعر سے تو لگتا ہے کہ بات یوں ہو رہی ہے کہ محبوب نے ہم کو بھول جانے، یا بھلا دینے کی قسم کھائی تھی، لیکن پھر مل بیٹھے؟؟ اگر ایسا ہے تو ’بھلا دینے‘ میں یہ بات واضح ہوتی ہے، بھول جانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے ان کو بھولنے کی قسم کھائی تھی۔ یہ شعر بھی دو بارہ کہو۔

صاف گوئی سے کام لوں تو مجموعی طور پر یہ غزل کافی کمزور ہے، تمہاری دوسری غزلوں کے مقابلے میں۔
اور اساتذہ کہاں ہیں، یہاں آتے نہیں۔۔ وارث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
 
تجاویز کا بہت شکریہ ، آپ اتنی توجہ دیتے ہیں تو حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وگرنہ بہت سے اساتذہ تو سوائے حوصلہ شکنی کے اور کچھ نہیں کرتے، آپ کی پیش کردہ ترامیم اور کچھ نئے خیالات کے ساتھ اس غزل کی شکل کچھ یوں بنائی ہے ، اب دیکھئے اور بتایئے اسے کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

غیر کی صحبت میں اپنے آشنا پھر مل گئے
ہم گریزاں جن سے تھے وہ بے وفا پھر مل گئے

وصل کی ساری امیدیں خاک میں جب مل چکیں
دل کے اِک گوشے میں وہ اہل جفا پھر مل گئے

ہاں یونہی سورج ڈھلے جب غور سے دیکھا تو وہ
ڈوبتے سائے میں اکثر غمزدہ پھر مل گئے

جن رقیبوں کو بھلانے میں ہمیں عرصہ لگا
وہ نہ جانے کیوں تمہارے مبتلا پھر مل گئے

جب کبھی یہ زیست اپنی ہم لٹانے کو چلے
یار کی گلیوں میں ہم کو ناصحہ پھر مل گئے

بھولنے کی ہرقسم کے بعد بھی وہ تو انیس
دل کی ٹوٹی کرچیوں میں بہ خدا پھر مل گئے
 

الف عین

لائبریرین
ذرا دوسرے اساتذہ کا انتظار کیا جائے۔ پھر دیکھتا ہوں۔ آخری دو ایک شعر ابھی بھی توجہ چاہتے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
انیس صاحب بہت خوب، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں ابھی طفلِ مکتب ہوں اور بحروں سے بھی بے بہرہ، ایک دو بھریں اعجاز صاحب اور وارث صاحب سے سیکھی ہیں بس انہی میں طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں۔ بحر حال اچھی غزل ہے مزید اساتذہ کرام سے مل کر سیکھتے ہیں۔
 
Top