براہ اصلاح

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
نظم



نظم
کھڑکی
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی وہ کھڑکی
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا
جب حسینہ کی گلی سے میں گزرنے لگتا
تو وہ آنکھوں کے اشارے سے بلاتی مجھ کو
چاند سے چہرے کے میں پاس چلا جاتا تو
خط حسینہ مرے ہاتھوں میں تھما دیتی تھی
خط محبت کا کلیجے سے لگا کر اپنے
حسنِ جاناں کی گلی سے میں چلا جاتا تھا
ڈرتا ڈرتا کسی ویران جگہ پر جا کر
کھول کر خط میں حسینہ کا سلیقے سے پھر
خط کا ہر لفظ عقیدت سے پڑھا کرتا تھا
اس کے ہر ایک محبت کے سوالوں کا جواب
میں بہت پیار سے چاؤ سے لکھا کرتا تھا
جیب میں خط کو چھپا کے میں بھٹکتا رہتا
کھڑکی پر جاں ابھی جلوۂ نما ہو جائیں
دستِ نازک میں محبت کا ابھی خط دے دوں
بند کھڑکی کے جھروکوں سے وہ تکتی رہتی
کھول دوں کھڑکی اگر یار نظر آجائے
دستِ محبوب سے خط لے کے پڑھوں جلدی سے
اس سے پوچھے ہوئے ہر ایک سوالوں کا جواب
حسبِ معمول محبت کے لکھے خط ہم نے

ایک دن پیار سے خط کو لگا پڑھنے تو
آخری خط ہے مرا پڑھتے ہی مرے یارو
جزو ہر ایک مرے دل کا ہوا چکنا چور
اس نے لکھا مجھے دھیرے سے بھلا ہی دینا
اب ہمیشہ کے لئے شہر سے میں جا رہی ہوں

جی تو کرتا ہے کہ کھڑکی کو بھلا دوں یارو
کیا کروں کھڑکی بھلائی نہیں جاتی مجھ سے
اب خیالوں میں فقط کھڑکی نظر آتی ہے
جب کبھی کوئی کھلی کھڑکی نظر آتی ہے
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی وہ کھڑکی
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
کئی مصرعوں میں الفاظ کی ترتیب بدلنے سے روانی بہتر کی جا سکتی ہے، یہ ایکسرسائز خود کر لیں پھر کچھ اغلاط ہوں گی تو پھر دیکھیں گے
 

یاسر علی

محفلین
شکریہ محترم !
میں مزید کوشش کرتا ہوں ۔
میں مشق کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے کا جناب!

  • نظم
کھڑکی
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی کھڑکی وہ
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا
جب حسینہ کی گلی سے میں گزرنے لگتا
تو وہ آنکھوں کے اشارے سے بلاتی مجھ کو
مسکراتے ہوئے! میں پاس چلا جاتا جب
خط حسینہ مرے ہاتھوں میں تھما دیتی تھی
خط محبت کا کلیجے سے لگا کر اپنے
حسنِ جاناں کی گلی سے میں چلا جاتا تھا
ڈرتا ڈرتا کسی ویران جگہ پر جا کر
کھول کر خط میں محبت کا سلیقے سے پھر
خط کا ہر لفظ عقیدت سے پڑھا کرتا تھا
اس کے ہر ایک محبت کے سوالوں کا جواب
میں بہت پیار سے چاؤ سے لکھا کرتا تھا
جیب میں خط ! میں چھپا کے ہی بھٹکتا رہتا
کھڑکی پر جاں ابھی جلوۂ نما ہو جائیں
دستِ نازک میں محبت کا ابھی خط دے دوں
بند کھڑکی کے جھروکوں سے وہ تکتی رہتی
کھول دوں کھڑکی اگر شوخ نظر آجائے
دستِ محبوب سے خط لے کے پڑھوں جلدی سے
اس سے پوچھے ہوئے ہر ایک سوالوں کا جواب
حسبِ معمول لکھے ہم نے محبت کے خطوط

ایک دن پیار سے خط میں لگا پڑھنے جب
اس نے لکھا مجھے دھییرے سے بھلا ہی دینا
اب ہمیشہ کے لئے شہر سے میں جا رہی ہوں
آخری خط ہے مرا! پڑھتے ہی میرے یارو

جزو ہر ایک مرے دل کا ہوا! چکنا چور


جی تو کرتا ہے کہ کھڑکی کو بھلا دوں یارو
کیا کروں مجھ سے بھلائی نہیں جاتی کھڑکی
اب خیالوں میں فقط کھڑکی نظر آتی ہے
جب کبھی کوئی کھلی کھڑکی نظر آتی ہے
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی کھڑکی وہ
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا
یاسر علی میثم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
آخری بند تو کھڑکی کا پہاڑا ہو گیا!
کچھ مصرعے کم کر دینے کی ضرورت بھی ہے
دوبارہ پوسٹ کریں
 

یاسر علی

محفلین
جناب اب دیکھئے گا!

  • نظم
کھڑکی
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی کھڑکی وہ
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا
جب حسینہ کی گلی سے میں گزرنے لگتا
تو وہ آنکھوں کے اشارے سے بلاتی مجھ کو
مسکراتے ہوئے! میں پاس چلا جاتا جب
خط حسینہ مرے ہاتھوں میں تھما دیتی تھی
خط محبت کا کلیجے سے لگا کر اپنے
حسنِ جاناں کی گلی سے میں چلا جاتا تھا
ڈرتا ڈرتا کسی ویران جگہ پر جا کر
کھول کر خط میں محبت کا سلیقے سے پھر
خط کا ہر لفظ عقیدت سے پڑھا کرتا تھا
اس کے ہر ایک محبت کے سوالوں کا جواب
میں بہت پیار سے چاؤ سے لکھا کرتا تھا
جیب میں خط ! میں چھپا کے ہی بھٹکتا رہتا
کھڑکی پر جاں ابھی جلوۂ نما ہو جائیں
دستِ نازک میں محبت کا ابھی خط دے دوں
بند کھڑکی کے جھروکوں سے وہ تکتی رہتی
کھول دوں کھڑکی اگر شوخ نظر آجائے
دستِ محبوب سے خط لے کے پڑھوں جلدی سے
اس سے پوچھے ہوئے ہر ایک سوالوں کا جواب
حسبِ معمول لکھے ہم نے محبت کے خطوط

ایک دن پیار سے میں! خط کو لگا پڑھنے جب
اس نے لکھا مجھے دھییرے سے بھلا ہی دینا
اب ہمیشہ کے لئے شہر سے میں جا رہی ہوں
آخری خط ہے مرا! پڑھتے ہی میرے یارو
جزو ہر ایک مرے دل کا ہوا! چکنا چور

اب شَب و روز خیالوں میں نظر آتی ہے
کیا کروں مجھ سے بھلائی نہیں جاتی یارو!
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی کھڑکی وہ
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کاپی نہیں کر پا رہا ہون اس لئے اقتباس میں ہی اصلاح کر رہا ہوں
جناب اب دیکھئے گا!

  • نظم
کھڑکی
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی کھڑکی وہ
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا
.. درست
جب حسینہ کی گلی سے میں گزرنے لگتا
تو وہ آنکھوں کے اشارے سے بلاتی مجھ کو
.... صیعہ ماضی کا رکھیں کہ روانی بہتر ہو
اس حسینہ کی گلی سے جو گزرتا تھا کبھی
تب وہ آنکھوں کے اشارے سے بلاتی تھی مجھے

مسکراتے ہوئے! میں پاس چلا جاتا جب
خط حسینہ مرے ہاتھوں میں تھما دیتی تھی
... میرے ہاتھوں میں وہ اک نامہ تھما دیتی تھی
حسینہ ہر بار دہراو نہیں

خط محبت کا کلیجے سے لگا کر اپنے
حسنِ جاناں کی گلی سے میں چلا جاتا تھا
.. ھسن جاناں کی گلی؟
اس حسینہ کی گلی سے میں چلا آتا تھا

ڈرتا ڈرتا کسی ویران جگہ پر جا کر
کھول کر خط میں محبت کا سلیقے سے پھر
خط کا ہر لفظ عقیدت سے پڑھا کرتا تھا
.. اس کا ہر لفظ...

اس کے ہر ایک محبت کے سوالوں کا جواب
میں بہت پیار سے چاؤ سے لکھا کرتا تھا


جیب میں خط ! میں چھپا کے ہی بھٹکتا رہتا
کھڑکی پر جاں ابھی جلوۂ نما ہو جائیں
... حسینہ اب مہارانی بن گئیں؟ پہلا مصرع بحر سے خارج
جیب میں خط کو چھپا کر میں اسی کوچے میں،
گھومتا رہتا کہ وہ مجھ کو نظر آ جائے

دستِ نازک میں محبت کا ابھی خط دے دوں
بند کھڑکی کے جھروکوں سے وہ تکتی رہتی
کھول دوں کھڑکی اگر شوخ نظر آجائے
.... کھول دوں کھڑکی جو وہ مجھ کو نظر آ جائے
لیکن یہ مصرع میں نے صرف شوخ کو ہٹانے کے لئے تجویز کیا ہے، ویسے حقیقت نہیں ہو سکتی، کھڑکی کھلے بغیر محبوبہ کیسے نظر آ سکتی ہے؟ مزید کہ ابھی تو خط دینے کا موقع ملا ہے، ابھی جواب بھی دے دیتی ہے اڈوانس میں؟

دستِ محبوب سے خط لے کے پڑھوں جلدی سے
اس سے پوچھے ہوئے ہر ایک سوالوں کا جواب
... ہر ایک سوال، یا ان سارے سوالوں درست ہو گا، ہر ایک سوالوں نہیں
پ
حسبِ معمول لکھے ہم نے محبت کے خطوط

ایک دن پیار سے میں! خط کو لگا پڑھنے جب
اس نے لکھا مجھے دھییرے سے بھلا ہی دینا
... دھیرے سے لکھا؟ یا دھیرے سے بھلا دینا؟ دھیرے دونوں اعمال کے لئے درست نہیں لگتا
.. تم دل سے بھلا ہی دینا

اب ہمیشہ کے لئے شہر سے میں جا رہی ہوں
.... جا رہی ہوں میں ہمیشہ کے لئے بستی سے

آخری خط ہے مرا! پڑھتے ہی میرے یارو
جزو ہر ایک مرے دل کا ہوا! چکنا چور
... یارو بھرتی کا ہے، بہتر ہو کہ ایک مصرع مکمل اس خط کا ہو، اور اگلے مصرع میں تمہاری ری ایکشن! دل ٹوٹ گیا کہنا کافی ہے

اب شَب و روز خیالوں میں نظر آتی ہے
... نظر آتی ہے وہ

کیا کروں مجھ سے بھلائی نہیں جاتی یارو!
یاد آتی ہے بہت مجھ کو کھلی کھڑکی وہ
روز جس کھڑکی سے مہتاب نکل آتا تھا
چارسو دل کے اندھیرے کو مٹا دیتا تھا۔
 
Top