براہ اصلاح

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


اس طرف مکھ ذرا نہیں کرتے ۔
رحم کیوں بے وفا نہیں کرتے ۔

لاکھ ہم پر ستم کرو لیکن
تم سے کوئی گلہ نہیں کرتے۔

بیٹھ جاتے زمین پر ہیں جو
آدمی وہ گرا نہیں گرتے۔

مارنے والے تو ہیں مر جاتے
مرنے والے مرا نہیں کرتے ۔

۔کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں اس دن
ہم سے جس دن ملا نہیں کرتے۔

جن کی شاخیں ہی کاٹ دیں جائیں
وہ شجر پھر بڑھا نہیں کرتے۔

کتنے خوش بخت ہوتے ہیں وہ جو
دوستوں سے لڑا نہیں کرتے۔

جن کی فطرت میں بے وفائی ہو
وہ کسی سے وفا نہیں کرتے۔

درد دیتے مجھے مسیحا ہیں
دردِ دل کی دوا نہیں کرتے۔

عشق ان کا ہی شیوہ ہے میثم
موت سے جو ڈرا نہیں کرتے۔
 
آخری تدوین:
طویل غزل ہے، اس لئے اقتباس میں ہی رائے دے رہا ہوں اپنی آسانی کے لئے

اس طرف مکھ ذرا نہیں کرتے ۔
رحم کیوں بے وفا نہیں کرتے ۔
ٹھیک ہے، مگر زیادہ جاندار نہیں ہے مطلع! جب وہ ہے ہی بے وفا تو اس سے رحم کرنے کی امید چہ معنی دارد؟
مکھ کی جگہ رخ کردو تو زیادہ بہتر رہے گا۔


لاکھ ہم پر ستم کرو لیکن
تم سے کوئی گلہ نہیں کرتے۔
ٹھیک ہے۔

بیٹھ جاتے زمین پر ہیں جو
آدمی وہ گرا نہیں گرتے۔
پہلے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب اچھی نہیں لگ رہی، غیر ضروری تعقید محسوس ہوتی ہے۔
جو زمیں پر نشست رکھتے ہیں
آدمی وہ ۔۔۔


مارنے والے تو ہیں مر جاتے
مرنے والے مرا نہیں کرتے ۔
یہاں بھی الفاظ کی ترتیب اچھی نہیں۔ علاوہ ازیں والے کی ے کا اسقاط اور تو کا طویل کھنچنا بھی ناگوار لگتا ہے۔



۔کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں اس دن
ہم سے جس دن ملا نہیں کرتے۔
کون کھویا کھویا رہتا ہے؟ شعر میں فاعل موجود نہیں۔

جن کی شاخیں ہی کاٹ دیں جائیں
وہ شجر پھر بڑھا نہیں کرتے۔
’’دیں جائیں‘‘ کہنا غلط ہے، ’’دی جائیں‘‘ کہیں۔
لیکن بڑھوتری روکنے سے متعلق محاورہ جڑیں کاٹنا ہے، شاخیں تو کٹ بھی جائیں تو دوبارہ نکل آتی ہیں۔ گویا شعر میں معنوی سقم ہے (میرے خیال میں)


کتنے خوش بخت ہوتے ہیں وہ جو
دوستوں سے لڑا نہیں کرتے۔
ہوتے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں لگتا۔

جن کی فطرت میں بے وفائی ہو
وہ کسی سے وفا نہیں کرتے۔
بھرتی کا شعر ہے، اس کو نکال دیں۔

درد دیتے مجھے مسیحا ہیں
دردِ دل کی دوا نہیں کرتے۔
پہلے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب یہاں بھی محلِ نظر ہے۔ ’’درد دیتے مجھے ہیں‘‘ کہنا ٹھیک نہیں۔

عشق ان کا ہی شیوہ ہے میثم
موت سے جو ڈرا نہیں کرتے۔
عشق زیبا ہے ان کو ہی میثمؔ
موت سے ۔۔۔
یا دوسرے مصرعے کو یوں بھی کر سکتے ہیں
جو اجل سے ڈرا نہیں کرتے
 

یاسر علی

محفلین
جناب!
اب دیکھیئے گا۔



اس طرف رخ ذرا نہیں کرتے ۔
رحم کیوں بے وفا نہیں کرتے۔

لاکھ ہم پر ستم کرو لیکن
تم سے کوئی گلہ نہیں کرتے۔

جو زمیں پر نشست رکھتے ہیں
آدمی وہ گرا نہیں کرتے۔

صرف مرتے ہیں مارنے والے
مرنے والے مرا نہیں کرتے۔

کھویا کھویا میں رہتا ہوں اس دن
مجھ سے جس دن ملا نہیں کرتے۔

درد مجھ کو مسیحا دیتے ہیں
دردِ دل کی دوا نہیں کرتے۔

وہ بہت خوش نصیب ہیں، جو کبھی
دوستوں سے لڑا نہیں کرتے۔

جو شجر جڑ سے کاٹ دے جائیں
وہ شجر پھر بڑھا نہیں کرتے۔

عشق زیبا ہے ان کو ہی میثم
جو اجل سے ڈرا نہیں کرتے۔
 
اس طرف رخ ذرا نہیں کرتے ۔
رحم کیوں بے وفا نہیں کرتے۔
مطلع اب بھی کمزور ہے، رحم کا تعلق ظلم، جور و جفا سے ہوتا ہے، بےوفائی کے ساتھ اس کا تعلق مناسب نہیں لگتا۔

لاکھ ہم پر ستم کرو لیکن
تم سے کوئی گلہ نہیں کرتے۔

جو زمیں پر نشست رکھتے ہیں
آدمی وہ گرا نہیں کرتے۔

صرف مرتے ہیں مارنے والے
مرنے والے مرا نہیں کرتے۔
ٹھیک ۔۔۔ اگرچہ اقتباس میں موجود تیسرے شعر کی بنت مجھے اب بھی کمزور لگ رہی ہے۔

کھویا کھویا میں رہتا ہوں اس دن
مجھ سے جس دن ملا نہیں کرتے۔
کون ملا نہیں کرتا، یہ اب بھی واضح نہیں ہو رہا۔ دوسرے مصرعے کو یوں کرسکتے ہیں
تم کہ جس دن ملا نہیں کرتے

درد مجھ کو مسیحا دیتے ہیں
دردِ دل کی دوا نہیں کرتے۔
مسیحا کی الف کا اسقاط درست نہیں۔ ایک اصول یاد رکھیں کہ عربی اور فارسی الفاظ میں حروف علت کا اسقاط قدما کے یہاں تو کلیتاً ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ متاخرین کے یہاں بھی یہ کم از کم مکروہ کے درجے میں ہے۔

وہ بہت خوش نصیب ہیں، جو کبھی
دوستوں سے لڑا نہیں کرتے۔
ٹھیک۔ مگر شعر کچھ خاص نہیں لگا۔

جو شجر جڑ سے کاٹ دے جائیں
وہ شجر پھر بڑھا نہیں کرتے۔
’’کاٹ دے جائیں‘‘ کہنا تو بالکل بھی درست نہیں ۔۔۔ کاٹ دیئے جائیں کہیں گے تو مصرع بحر سے اتر جائے گا۔ علاوہ ازیں دونوں مصرعوں میں شجر کا آنا بھی اچھا نہیں۔
جڑ بریدہ جو کر دیئے جائیں
پیڑ ایسے بڑھا نہیں کرتے

دعاگو،

راحلؔ
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
اب دیکھیئے گا جناب۔

اس طرف رخ ذرا نہیں کرتے۔
رحم کیوں دل ربا نہیں کرتے۔


مجھ کو سب دوست درد دیتے ہیں
دردِ دل کی دوا نہیں کرتے۔
 
Top