میل رکھتے ہیں نہ دل میں غبار رکھتے ہیں
دوسروں کے واسطے صرف پیار رکھتے ہیں
اس طرح کی بحور شکستہ بحور کہلاتی ہیں ۔۔۔ جن کے دونوں حصوں میں ایک طرح کے اراکین کی تکرار ہوتی ہے۔
جیسے کہ یہ بحر فاعلن مفاعلن کی تکرار پر مبنی ہے۔
ایسی بحور میں یہ رعایت رکھنا ضروری ہے کہ بحر کے ہر جزو میں فقرہ مکمل ہو رہا ہو۔
آپ کے مطلع کو دیکھیں تو پہلے مصرعے میں ایسا نہیں۔ پہلے جزو کے مقابل ’’میل رکھتے ہیں نہ دل‘‘ آ رہا ہے ۔۔۔ دل کے بعد اگر سکتہ لیا جائے تو فقرے کا مطلب ہی جدا ہو جاتا ہے جو شعر کے مفہوم سے لگا نہیں کھاتا۔
دوسرے مصرعے کو وزن میں لانے کے لیے واسطے س کو متحرک پڑھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔ اس کا عروضی جواز کا تو شاید ہو ۔۔۔ لیکن محض جمالیاتی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سے شعر کا حسن خراب ہو رہا ہے۔
نفرتوں کے واسطے، بند دل کے راستے
ہم۔فقط محبتوں کو شمار رکھتے ہیں
ایک تو شعر دولخت ہے۔ مزید یہ کہ پہلے مصرعے میں واسطے اور راستے کی س اسی طرح متحرک ہو رہی جیسے کہ مطلع کے مصرع ثانی میں ہے۔
مزید برآں، دوسرے مصرعے میں بھی وہی مطلع والا مسئلہ ہے کہ ایک جزو کے مقابل فقرہ مکمل نہیں ہو رہا۔
بھول جاتے ہیں ستم کرنے والوں کے ستم
پر کرم کرے کوئی تو کرم ادھار رکھتے ہیں
جاتے کی ے اور والوں کی وں کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ علاوہ ازیں شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں کیونکہ ’’رکھتے ہیں‘‘ کی ضمیر مجہول ہے، اور شعر میں فاعل کا تذکرہ ہے، نہ اس کی طرف کوئی اشارہ۔
ہم نہیں جواب پتھر سے دیتے اینٹ کا
پھول رکھتے ہیں ہم اگر وہ خار رکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں لفظ پتھر بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے، جو ٹھیک نہیں۔ بلا کی تعقید بھی ہے۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔
سنگ سےجواب دیتے نہیں ہم اینٹ کا
پھول رکھتے ہیں ہم اگر وہ خار رکھتے ہیں
یہاں بھی وہی مسئلہ کہ ’’دیتے‘‘ بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ محاورہ ’’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا‘‘ ہے ۔۔۔ محاورات کی اس طرح من مانی ’’پیرافریزنگ‘‘ درست نہیں۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔