برداشت کا کلچر

برداشت کا کلچر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَّ۔ذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللّ۔ٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ (134)
جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
(ال عمران ۔134)
وَلَمَنْ صَبَ۔رَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (43)
اور البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔
(سورة الشوری:43)

ایک مشہور قول ہے کہ "برداشت بزدلی نہیں بلکہ زندگی کا ایک سنہری اصول ہے"
۔
مولانا رومی کی ایک حکایت میرے ذہن میں آرہی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ
"ایک بزرگ اپنے علم و کمال کے سبب بہت مشہور ہوئے۔ ان سے ملنے کے لیے ایک شخص کسی دوسرے شہر سے آیا۔ کافی تلاش کے بعد وہ شخص بزرگ کے گھر پہنچ گیا، دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ان بزرگ کی بیوی نے پوچھا کہ کون ہے؟ اس شخص نے ساری بات بیان کردی تو بزرگ کی بیوی نے اس شخص سے کہا کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے، میرا شوہر تو کسی قابل نہیں، نہایت غلط کردار کا حامل ہے۔
آپ نے بلاوجہ اتنا سفر کرکے یہاں پہنچ کر اپنا وقت برباد کیا۔ یہ بات سن کر اس شخص کو بڑی حیرانی ہوئی اور وہ اس عورت کی بدزبانی پر بھی سخت حیران ہوا۔ خیر وہ شخص ہمت نہ ہارا اور ان بزرگ کو تلاش کرتے کرتے جنگل میں جا نکلا۔ اس شخص نے دیکھا کہ جنگل میں وہ بزرگ شیر پر سوار ہوکر آرہے ہیں۔ یہ شخص پھر بہت حیران ہوا اور ان بزرگ سے کہنے لگا کہ آپ کی بیوی تو بڑی بد زبان ہے اور آپ کے بارے میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی اور آپ یہاں شیر پر سواری کررہے ہیں، شیر آپ کے تابع ہے، بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اس پر بزرگ نے جواب دیا کہ میں ایسی بدزبان بیوی کو برداشت کررہا ہوں اس کے ساتھ گزارا کررہا ہوں تبھی تو شیر کو بھی قابو کرلیا اور یہ مقام حاصل کرلیا'
۔
۔
کاش ہم بھی ایک دوسرے کو معاف کرنے اور برداشت کا عمل شروع کردیں تاکہ معاشرے میں ایک بار پھر برداشت کا اسلامی کلچر زندہ ہوجائے۔
 
آخری تدوین:
بے شک۔ بہت اہم موضوع پر آپ نے بات کی ہے۔
کیونکہ آج کل جو بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں یا پھیلی ہوئی ہیں، ان میں سے ایک عدم برداشت ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
 
Top