حماد
محفلین
دوبارہ کوشش کر رہا ہوں جواب لکھنے کی۔
ظفری ، اگر تمہیں یاد ہو تو مغربی سائنسی تاریخ میں ایک دور کو "Dark Ages" بھی کہا جاتا ہے جو درحقیقت مغربی حوالے سے ہے ورنہ اس دور میں عربوں نے سائنس کو مفروضوں سے تجرباتی سائنس میں ڈھال دیا تھا اور بے شمار سائنسی ایجادات کی اور بہت سے سائنسی نظریات کی بنیاد رکھی۔ اسی دور میں ہندوستان ، چین ، جاپان اور دوسرے مشرقی ممالک میں بھی سائنسی ترقی جاری رہی اور ہنوز جاری ہے۔
کیمیا تو لفظ ہی عربوں سے مستعار لیا گیا۔ بابائے کیمیا کا اعزاز جابر بن حیان کو بہت سے مغربی مستشرقین نے ہی دیا ہے۔
طبیعات کے ڈھیروں نظریات جن میں سے روشنی کے انعکاس اور لینز کے خصوصیات دو ایسی چیزیں ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں۔
کمپیوٹر پر آ جاؤ ، الخوارزمی کے نام پر الگورتھم جو کہ ہر کمپیوٹر پروگرام کی روح ہوتا ہے ایک مسلمان اور مشرقی باشندے ہی کی دین ہے۔
الجبرا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ کیا کہنے کی ضرورت ہے کہ کس کی ایجاد تھی اور کس نے استعمال کی اور اب کیسے استعمال ہوتی ہے۔
Decimal System ، صفر کی ایجاد۔
یہ صرف مسلمان کی چند ایجادات کا ذکر ہے۔ مشرقی دوسرے ممالک کی بیش بہا ایجادات اور خدمات علیحدہ ہیں۔
اب میں اگر کہوں کہ الگورتھم (باقاعدہ حساب کی شاخ بھی ہے)چونکہ الخوارزمی سے منسوب ہے تو ساری کمپیوٹر کی ترقی کے لیے مغربی کو اس شخص کا احسان مند ہونا چاہیے تو یقینا اس سے شاید ہی کوئی اتفاق کرے گا کیونکہ باقی لوگ جنہوں نے اس کے بعد محنت کی وہ کسی طور کم نہیں اور کسی طور حیثیت میں پست نہیں۔
صدیوں کی غلامی اور زوال نے ہمیں اتنا مرعوب اور ذہنی مفلس کر دیا ہے کہ اپنے کسی بھی کارہائے نمایاں کا بھی یقین نہیں آتا۔ مغربی بد دیانتی اس میں حد سے سوا ہے جس نے دنیا کو یہی بتایا کہ سب کچھ خالصتا ان کی ہی محنت کا نتیجہ ہے اور مسلمان تو جاہل ہی تھے اور جاہل ہی رہیں گے۔ اب جا کر کچھ عرصہ سے مسلمان کی خدمات کو ماننا شروع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں قابل ذکر کام ہوا ہے اور وہاں سیمینار اور کانفرسیں بھی ہوئی ہیں۔
ایک برطانوی لنک پیش کر رہا ہوں ، تحقیق کرنے والے اس موضوع پر بہت کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں
کس طرح اسلامی موجدین نے دنیا بدلی
چلو یار سی این این کی گواہی تو مان لو گے نہ
مسلم ایجادات جنہوں نے جدید دنیا تشکیل دی
یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے اور شکریہ اس بجھی چنگاری کو بھڑکانے کا ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے سکولوں میں نصابی سائنسی کتب کا پہلا باب مسلمانوں کے ان ہی کارناموں سے مزین ہے اور یہ ہزار سال پرانی کہانیاں ہم ہر کلاس میں پڑھ پڑھ کر، رٹ رٹ کر، لکھ لکھ کر اور اب سن سن کر تنگ آ چکے ہیں۔ بھائ 'پدرم سلطان بود' سے آگے بڑھئے۔
مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب "تاریخ کی دریافت" میں رقمطراز ہیں۔
"تہذیب کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن اقوام نے ماضی میں شاندار تہذیب پیدا کی اور پھر وہ زوال پزیر ہو گئیں تو ایسی اقوام کیلئے ان کا شاندار ماضی انکے لئے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ ایک ایسا سحر اور جادو ہوتا ہے جس سے نکلنا انکے لئے مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جو تہذیبیں ترقی کرتی ہیں، انکے لئے ماضی کی شان و شوکت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔
شاندار ماضی کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے زوال کے زمانے میں بھی یہ اقوام دوسری قوموں کو اپنے سے کم تر سمجھتی ہیں اور خود کو اپنے عروج کے پیمانے سے ناپتی ہیں۔ اس ذہن کی وجہ سے انکے لئے نئ روایات اور اقدار کو قبول کرنا ناممکن ہوتا ہے۔وہ دوسری تہذیبوں سے سیکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔" ( صفحہ 194، سن اشاعت 2009، دوست پبلی کیشنز )
سید سبط حسن لکھتے ہیں۔
"کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائ سے کس حد تک کام لیا ہے۔ اس توانائ میں اپنی توانائ آفرین تخلیقات سے کتنا اضافہ کیا ہے۔ اسکو کتنا نکھارا اور چمکایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئ معاشرہ روح عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ اور اگر نئے تجربوں تحقیقوں اور جستجوؤں کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اسکی افزائش رک جاتی ہے اور پھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کے زوال کی تاریخ دراصل انکے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئ ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجام کار فنا ہو گئیں۔ دارائے ایران کو سکندر اعظم نے شکست نہیں دی تھی بلکہ ایک زوال پزیر معاشرے نے ترقی پزیر معاشرے کے ہاتھوں زک اٹھائ تھی اور وادئ سندھ کی تہذیب پر آریہ اس وجہ سے غالب آئے تھے کہ ان میں توانائ کی مقدار جس کا مظہر انکے آلات و اوزار تھے، یہاں کے قدیم باشندوں سے زیادہ تھی۔ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط اور پھر 1857ء میں ہندوستانیوں کی شکست کے اسباب بھی اہل مغرب کے بہتر آلات اور ترقی یافتہ معاشرتی نظام میں پوشیدہ ہیں۔"
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء ، صفحہ 31 ، سن اشاعت 2009، دانیال بپلشرز)