فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان امريکی شہريوں کو الگ تھلگ کر دينا يا اسلامی دنيا ميں درجنوں ايسے ممالک کو تنہا کر دينا جو خطے ميں ہمارے اہم ترين اتحادی اور شراکت دار بھی ہيں، يقینی طور پر ايسے عوامل نہيں جو کسی بھی طور ہمارے ليے بہتری کا موجب بن سکتے ہيں يا جن کے حصول کے ليے ہم کاوشيں کريں گے۔ آبادی کے ايک بڑے حصے کو محض مذہبی وابستگی کی بنياد پر نشانہ بنانا ان اقدار کے بھی منافی ہے جو ہمارے معاشرے کی اہم ترين اساس ہيں۔
دوسری جانب داعش جيسی دہشت گرد تنظيميں دانستہ ايسی سوچ کی تشہير اور مقبوليت کی سعی بھی کرتی ہيں اور خواہش بھی کرتی ہيں جس کے مطابق دنيا ميں ايک ايسی مذہبی جنگ کی ضرورت ہے جو مسلمانوں سميت ہر اس طبقے کے خلاف ہونی چاہيے جو ان کے دقيانوسی خيالات سے مطابقت نہيں رکھتے ہيں۔ ان کی تمام تر کاروائيوں کا مقصد ايک ايسے عالمی منظر نامے کا حصول ہے جہاں دنيا مذہبی عقائد کی بنياد پر تقسيم ہو جائے۔ اور اسی سوچ کو داعش جيسی دہشت گرد تنظيميں نئے جنگجوؤں کی بھرتی اور عوامی سطح پر اپنے تسلط ميں وسعت کے ليے استعمال کرتی ہيں۔
اگر برسلز ميں ہونے والے دہشت گرد کے حاليہ واقعے اور ايسے ہی ديگر سانحوں کے بعد گفتگو اور بحث کا محور اور رخ اس جانب ہوتا ہے کہ دنيا کو مذہب کی بنياد پر کس طرح تقسيم کيا جانا چاہيے تو يقین رکھيں کہ يہ امريکی حکومت يا مغرب کے ليے نہيں بلکہ داعش جيسے دہشت گردوں کے ليے کاميابی گردانا جائے گا۔
ميرے نزديک يہ نقطہ بھی نہايت اہم ہے کہ امريکہ اور مغربی ممالک ميں اسلام کے تيزی سے پھيلنے کی وجہ يہ ہے کہ امريکہ اور مغرب ميں مقيم بہت سے تعليم يافتہ مسلمانوں نے اپنے مثالی طرز عمل اور برداشت کی حکمت عملی کے ذريعے غير مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کيا ہے۔ داعش جيسے گروہ اسلام يا کسی اور مذہب تو درکنار، ايسے بنيادی اقداد کی بھی ترجمانی نہيں کرتے جو کسی کو قائل کرنے يا کسی بھی گروہ کی نيک نامی کا باعث بن سکيں۔
آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔