برمنگھم کے سرکاری اسکولوں پر القائدہ کا قبضہ!

arifkarim

معطل
لندن…برطانیہ کے پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ خالد محمود نے کہا ہے کہ شدت پسندوں نے برمنگھم کے اسکولوں کو ہدف بنالیا ہے جہاں بچوں کو انتہا پسندی پر مبنی تعلیم دی جارہی ہے۔برمنگھم برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے، جہاں تقریباً تین لاکھ پاکستانی نژاد برطانوی شہری آباد ہیں۔ برطانوی محکمہ تعلیم نے ان الزامات کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت انتہا پسند ایک منصوبے کے تحت برمنگھم کے 25 اسکولوں کو اپنی تحویل میں لینے ، وہاں سے غیر مسلم اسٹاف کو ہٹانے اور شدت پسندانہ موقف کے حامی اسٹاف کو لانا چاہتے ہیں۔ برطانوی محکمہ تعلیم کے مطابق اس منصوبے کو آپریشن ٹروجن ہارس کا نام دیا گیا ہے اور ایسی کئی شکایات ملی ہیں کہ اس مقصد کے لیے اسلامی نقطہ نظر رکھنے والے اساتذہ نے مہم چلارکھی ہے۔ برمنگھم سے لیبر پارٹی کے رکن پارلے منٹ خالد محمود کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ اساتذہ اس سازش میں شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اسکولوں میں پاکستانی اور بنگلادیشی نژاد بچوں کی اکثریت ہے جن کے والدین کا تعلق مختلف فرقوں سے ہے۔اب حقائق کا سامنا اور یہ اعتراف کرنے کا وقت آگیا ہے کہ مسلمان کمیونٹی کے اندر انتہاپسند موجود ہیں جو ہر شخص پر اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
کچھ دن قبل برطانوی محکمہ تعلیم نے اپنی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے ان الزامات کا اعتراف کر لیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق برمنگھم کے سرکاری اسکول غیر قانونی طور پر غیر مسلم طالبعلموں کیساتھ امتیازی سلوک کررہے ہیں۔ اور GCSE کے سرکاری نصاب کو شریعت کے تابع بنا کر پڑھایا جا رہا ہے۔
محکمہ تعلیم کے انسپکٹرز نے بتایا کہ ٹروجن ہارس نامی اس اسلامی سازش کے تحت برطانوی طالبات کو جبراً کلاس رومز میں پیچھے کی کرسیوں پر بٹھایا جاتا، چند عیسائی طلبہ کو اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم حاصل کرنی پڑتی اور ایک شدت پسند اسلامی مولوی کو "لیکچر" کیلئے اسکول میں آنے کی دعوت دی گئی۔
یہ تحقیقات تب شروع ہوئیں جب کچھ ہفتے قبل ٹروجن ہارس نامی اسلامی سازش کو مقامی اخبارات نے بے نقاب کیا۔ ان تحقیقات کو فی الحال Park View School اور اسکے ماتحت اسکولوں تک محدود کیا گیا ہے لیکن محکمہ تعلیم اپنے شکوک و شبہات دور کرنے کیلئے برمنگھم کے تمام 25 اسکولوں میں اس قسم کی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انسپکٹرز نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ Park View School میں جبراً جنسی علیحدگی کو فروغ دیا گیا اور سرکاری GCSE کے نصاب کو اسلامی شریعت تک محدود کر دیا ۔
مثال کے طور پر GCSE کے بنیادی مضامین کو غیر اسلامی قرار دے کر سرکاری نصاب سے خارج کر دیا گیا نیز ایک شدت پسند القائدہ کے حمدرد اور یہود مخالف مولوی کو اسکول میں کم سن بچوں کولیکچر دینے کیلئے مدعو کیا گیا۔ Golden Hillock نامی اسکول میں غیر مسلم طلبہ کیساتھ امتیازی اسلوک رواں رکھا گیا ۔ اس اسکول کے مٹھی بھر عیسائی طالبعلموں کو اپنی مدد آپ کے تحت ایک ضروری مضمون پڑھنے، سمجھنےکا کہا گیا کیونکہ وہاں پر موجود اساتذہ ان طلبہ کو ترجیح دے رہے تھے جو صرف اسلامیات پر کام کر رہے تھے!
Nansen اسکول میں 10 سے 11 سال یعنی چھٹی جماعت کے بچوں کو فنون مصوری، موسیقی اور دیگر علوم بشریات کی سرے سے کوئی تعلیم ہی نہیں دی گئی!
ٹراجن ہارس نامی اس اسلامی سازش میں تفصیل کیساتھ یہ بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح اسلامی شدت پسند قوتیں نہتے مسلمان والدین کے جذبات کو بھڑکا کر برمنگھم کے سرکاری اسکولوں سے سیکولر انتظامیہ کو بھگا سکتے ہیں یا دباؤ میں لا سکتےہیں۔ Park View اور اسکے چیئر مین آف گورنرز طاہر عالم کو اس سازش کا سرغنہ بتلایا گیا تھا۔ مسٹر عالم نے اس سازشی خط کو افسانہ، اسلام مخالف اور محض الزام تراشی قرار دیا تھا۔ لیکن اب محض ایک مہینے کے اندر اندر ہونے والی محکمہ تعلیم کی سرکاری تحقیقات کی رپورٹس ان تمام الزامات کو سچ ثابت کر رہی ہیں۔ یہ رپورٹ Park View اسکول کو 20 مختلف سرکاری قوانین توڑنے کا الزام لگاتی ہے۔
اسکول انسپکٹرز کو بچوں نے بتایا کہ حیاتیات کے مضمون میں استاد نے نظریہ ارتقاء درست پڑھایا لیکن ساتھ ہی میں یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ ہم اس نظریے کو نہیں مانتے۔ انسپکٹرز نے اپنی تحقیقا ت کے دوران یہ بھی دریافت کیا کہ انسانی اجسام کے ڈھانچے اور حیض جیسے مضامین کو کلاس میں پڑھایا نہیں جاتا۔ جبکہ GCSE کے امتحان کیلئے انکا پڑھنا، سمجھنا بہت ضروری ہے۔ طلبہ نے انسپکٹرز کو بتایا کہ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ایک سچا مسلمان ہونے کے ناطے ہم افزائش نسل اور میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلقات پر مبنی سائنسی حقائق نہیں جان سکتے! Park View اسکول میں ذاتی، صحت اور سماجی تعلیم کیلئے کسی اسلامی "مدرسے" کا نصاب پڑھایا گیا۔
انسپکٹرز کا کہنا ہے کہ گو کہ کاغذ پر یہ سرکاری اسکول سیکولر یعنی غیر مذہبی ہیں لیکن اسکے باوجود یہاں غیر مسلمین اور دہریوں کیساتھ امتیازی اسلوک رواں رکھا جا رہا ہے۔ Park View میں طالبعلموں کو ہر نئے مضمون پڑھنے سے قبل " اجتماعی دعا" کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور اسکول کے لاؤڈ اسپیکر سسٹم کو آذان اور دیگر دعائیہ کلمات کہنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں مزید انکشافات کئے گئے ہیں جیسے ان اسکولز کی انتظامیہ غیر مسلم پرنسپل کو اہمیت نہیں دیتی۔ خواتین اساتذہ کیساتھ بد تمیزی کیساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ ان اسکولوں کی انتظامیہ مسلسل اپنے قریبی رشتہ داروں کو اساتذہ کے طور پر بھرتی کر رہی ہے جسکی وجہ سے تعلیمی معیار اور بچوں کی سلامتی متاثر ہوئی ہوئے۔
Park View Educational Trust کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ یہ ایک خفیہ سرکاری ڈرافٹ رپورٹ ہے جسکا جواب ہمارے ٹرسٹ کو ایک خاص مدت میں دینا ہے اور اس رپورٹ کو پبلک تک نہیں پہنچنا چاہئے تھا۔ اسلئے اب ہم اس سرکاری رپورٹ پر مزید کمنٹ نہیں کریں گے!
حوالہ جات:
http://beta.jang.com.pk/JangDetail.aspx?ID=144912
http://www.telegraph.co.uk/education/educationnews/10775755/State-schools-isolate-non-Muslims.html
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
چشم کشا روپرٹ
تاہم یہ واضح کر دیجئے کہ یہ سطریں آپ نے اپنی طرف سے لکھی ہیں، ورنہ پوری رپورٹ ہی مشکوک ہو جائے گی
Park View Educational Trust کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ یہ ایک خفیہ سرکاری ڈرافٹ رپورٹ ہے جسکا جواب ہمارے ٹرسٹ کو ایک خاص مدت میں دینا ہے اور اس رپورٹ کو پبلک تک نہیں پہنچنا چاہئے تھا۔ لیکن چونکہ برطانوی عوام اب ہمارے کالے کرتوتوں سے باخبر ہو ہی گئی ہے اسلئے اب ہم اس سرکاری رپورٹ پر مزید کمنٹ نہیں کریں گے!
 

arifkarim

معطل
چشم کشا روپرٹ
تاہم یہ واضح کر دیجئے کہ یہ سطریں آپ نے اپنی طرف سے لکھی ہیں، ورنہ پوری رپورٹ ہی مشکوک ہو جائے گی
شکریہ قیصرانی۔ میں نے اپنی طرف سے صرف تین سطور لکھیں تھی۔ انکو بھی اب حذف کر دیا ہے۔ باقی رپورٹ اصل حوالہ جات سے اخذ کی گئی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شکریہ قیصرانی۔ میں نے اپنی طرف سے صرف تین سطور لکھیں تھی۔ انکو بھی اب حذف کر دیا ہے۔ باقی رپورٹ اصل حوالہ جات سے اخذ کی گئی ہے۔
شکریہ :)
رپورٹ واقعی بہت عجیب ہے کہ ایسے افراد اب کلیدی عہدوں پر پہنچ کر گل کھلانے لگ گئے ہیں :(
 

arifkarim

معطل
شکریہ :)
رپورٹ واقعی بہت عجیب ہے کہ ایسے افراد اب کلیدی عہدوں پر پہنچ کر گل کھلانے لگ گئے ہیں :(

اسمیں حیرت والی کیا بات ہے؟ یہی تو ہےآجکل کی"اسلامی" تہذیب ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں 1979 سے یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ شیعہ مذہبی علما کی ہر حکومتی ادارے میں دخل اندازی!
 
Top