جاسم محمد
محفلین
برمودا ٹرائی اینگل کا راز؟
26/04/2019 سید اقبال حسین رضوی
کچھ دن پہلے ”سازشی مفروضات“ اور اس پر یقین کرنے والوں کی ذہنی کیفیت اور وجوہات کا احاطہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی موضوع سے متعلق ایک سازشی مفروضہ راقم کہ خام ذہن میں عہد طفولیت سے ہی اڑ گیا تھا۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے، کہ بچپن سے ہی نا چیز کو مطالعہ کی لت پڑ گئی تھی۔ اس شوق کو ابھارنے میں نمایاں کردار میرے والد محترم اور بڑے بھائی کا تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا خود کو انواع و اقسام کے کتب کے بیچ پایا۔ ہمارے گھر میں مختلف موضوعات پر سینکڑوں کتب کا مجموعہ ہمہ وقت دستیاب تھا۔ ایک کتاب جو میرے ذہن کو تجسس کی راہ پر لے گئی ”جزیرۂ خضراء“ تھی۔ اس کتاب کے جدید مترجم ایڈیشن آج بھی مختلف ناشرین کے پاس دستیاب ہیں۔ مصنف نے اس کتاب کے پہلے حصے میں ایک مجہول روایت کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کے ”جزیرۂ خضراء“ ”امام مہدی علیہ السلام“ کی جائے سکونت ہے اور دوسرے حصے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”جزیرۂ خضراء“ دراصل مثلث برمودا ”Bermuda Triangle“ میں ہی واقع ہے۔
ہم کتاب کے پہلے حصے کے بارے میں بحث ان احباب پر چھوڑتے ہیں جو مذہبی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہی بہتر بتا سکتے ہیں کے علم حدیث و رجال اور سند کے حوالے سے یہ روایت کتنی قابل اعتماد ہے۔ ہماری توجہ کتاب کے دوسرے حصے کی طرف ہوگی جہاں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ”جزیرۂ خضراء“ کا تعلق مثلث برمودا میں ہونے والے پر اسرار واقعات سے ہے۔ ہم میں سے کافی لوگوں نے مثلث برمودا کے متعلق کافی کچھ پڑھا یا سنا ہوگا، اس بارے میں مفروضوں پر مبنی کافی مواد یو ٹیوب پر بھی موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھتے ہیں کہ مثلث برمودا سے متعلق پراسراریت ہے کیا؟
مثلث برمودا بحر اقیانوس ”Atlantic Ocean“ میں واقع ہے۔ اس تکون کی پہلی جہت امریکہ میں میامی شہر، دوسری پورٹو ریکو اور تیسری جزائر برمودا ہیں۔ مثلث برمودا کے بارے میں پر اسراریت کا آغاز 1950 میں اسوسییٹڈ پریس میں ایڈورڈ وان وینکل کے ایک مقالے سے ہوا۔ مزے کی بات یہ کہ اس سے پہلے اس علاقے میں کسی بھی قسم کے پر اسرار واقعات کا کہیں بھی کوئی تذکرہ نہیں۔ وان وینکل کے مطابق اس علاقے میں پچھلے کئی برسوں میں بے شمار بحری اور ہوائی جہازوں کی پر اسرار گمشدگی کے واقعات رونما ہوے اور مجموعی طور پر 135 افراد لا پتہ ہوے۔
1955 میں ایک اور کتاب شائع ہوئی: The case of UFO by M۔ K Jessup، جس نے ان تمام واقعات کو ایک نئی جہت دی۔ مصنف کے مطابق یہ سب خلائی مخلوقات کی کارستانیاں تھیں، کیونکہ دعووں کے مطابق ان تمام واقعات میں جہازوں کا ملبہ نہیں ملا تھا اور نا ہی گمشدہ افراد کا کوئی نام و نشاں تھا۔ 1964 میں وینسنٹ گیڈس کے مقالے نے ایک نیا دعوی کر دیا کہ ان واقعات کے نتیجہ میں 1000 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ وینسنٹ گیڈس ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس علاقے کو مثلث برمودا کا نام دیا۔ 70 کی دہائی میں اس علاقے سے منسلک واقعات زبان زد خاص و عام تھیں اور اس بارے میں کئی کتب منظر عام پر آئیں جن میں نمایاں چارلز بر لیٹز کی ”The Bermuda Triangle“ تھی جس میں سارا زور ان واقعات کو غیر مرئی قوتوں سے جوڑنے کا تھا۔
ساٹھ کی دھائی سے ہی مختلف افراد مثلث برمودا سے متعلق واقعات کی مختلف وجوہات اور تشریحات بیان کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی پر بھی یقین کرنے سے پہلے کوئی بھی ذی شعور انسان ان واقعات کی سچائی پر ضرور غوروفکر کرے گا۔ خوش قسمتی سے ایسی ہی ایک متجسس روح لیری کوشے 1975 میں اس افسانوی داستان کے اوپر سے پراسراریت کا غلاف اٹھا چکی تھی۔ اپنی کتاب ”The Bermuda Triangle Mystery Solved“ میں مصنف نے تمام واقعات سے متعلق وسیع تحقیقات کیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ پوری داستان مبالغہ آمیزی، غلط حقائق، خودساختہ واقعات اور کچھ جگہوں پر مصنفین کی سراسر بد دیانتی پر مبنی ہے۔
کوشے کے مطابق اس موضوع پر لکھنے والے بیشتر مصنفین نے تحقیق کی زحمت ہی نہیں کی، بلکہ ان میں سے زیادہ تر نے پچھلے مصنفین کے درج کردہ ”حقائق“ کو من و عن اپنی کتابوں میں بغیر کسی تحقیق کے نقل کیا ہے۔ کچھ مواقع پر جن بحری/ہوائی جہازوں اور کشتیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے وجود کی کوئی دستاویزی ثبوت ہی نہیں۔ یاد رہے کہ بحری اور ہوائی نقل و حرکت بغیر دستاویز اور اندراج کے ناممکن ہے۔ اور جہاں پر حقیقت پر مبنی بحری/ہوائی جہازوں کا ذکر ہے وہاں مصنفین یہ بات گول کر گئے کہ ان جہازوں کی گمشدگی سمندری طوفان کے باعث ہوئی اور یہ بھی کہ حادثات کا شکار ان جہازوں کا ملبہ کب ملا۔ اور زیادہ تر درج شدہ واقعات مثلث برمودا کے حدود سے ہی باہر ہوئے ہیں۔ یہ بتاتے چلیں کہ عام سوچ کے برعکس، یہ علاقہ امریکا، جزائر کیریبین اور یورپ کے درمیان ایک نہایت ہی مصروف بحری اور فضائی تجارتی گزرگاہ ہے اور خاص طور پر تفریحی کشتیوں کے شوقین افراد کی پسندیدہ آماجگاہ ہے۔ تو منطقی طور پر یہاں پر حادثات کا نسبتا زیادہ امکان ہے۔
کوشے کی کتاب نے اس تمام افسانوی داستان کی پراسراریت پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ مثلث برمودا محض سازشی مفروضے تک محدود رہ گیا۔ یہاں یہ تذکرہ خالی از لطف نا ہوگا، کہ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد مثلث برمودا سے متعلق جہازوں کی پراسرار گمشدگی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔
لیکن آج بھی مختلف رسائل و جرائد اور مختلف ذرائع ابلاغ محض سنسنی کے لئے اس افسانوی داستان کو نمک مرچ لگا کر حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مثلث برمودا کے بارے میں عجیب وغریب خیالات رکھتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ بحیثیت قوم ہم میں تحقیق اور جستجو کی عادت ہی نہیں۔
آخر میں ورلڈ وائلڈ لائف فیڈریشن WWF اور Allianz کی 2013 میں شائع ہونے والی دنیا کی خطرناک ترین آبی گزرگاہوں کی رپورٹ پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بحری حادثات بحیرہ جنوبی چین، بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کی گزرگاہ اور بحر منجمد شمالی اور جزائر برطانیہ کی گزرگاہ پر واقع ہوتے ہیں۔ اس پوری رپورٹ میں مثلث برمودا کا کہیں بھی تذکرہ نہیں، اسی میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں!
26/04/2019 سید اقبال حسین رضوی
کچھ دن پہلے ”سازشی مفروضات“ اور اس پر یقین کرنے والوں کی ذہنی کیفیت اور وجوہات کا احاطہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی موضوع سے متعلق ایک سازشی مفروضہ راقم کہ خام ذہن میں عہد طفولیت سے ہی اڑ گیا تھا۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے، کہ بچپن سے ہی نا چیز کو مطالعہ کی لت پڑ گئی تھی۔ اس شوق کو ابھارنے میں نمایاں کردار میرے والد محترم اور بڑے بھائی کا تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا خود کو انواع و اقسام کے کتب کے بیچ پایا۔ ہمارے گھر میں مختلف موضوعات پر سینکڑوں کتب کا مجموعہ ہمہ وقت دستیاب تھا۔ ایک کتاب جو میرے ذہن کو تجسس کی راہ پر لے گئی ”جزیرۂ خضراء“ تھی۔ اس کتاب کے جدید مترجم ایڈیشن آج بھی مختلف ناشرین کے پاس دستیاب ہیں۔ مصنف نے اس کتاب کے پہلے حصے میں ایک مجہول روایت کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کے ”جزیرۂ خضراء“ ”امام مہدی علیہ السلام“ کی جائے سکونت ہے اور دوسرے حصے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”جزیرۂ خضراء“ دراصل مثلث برمودا ”Bermuda Triangle“ میں ہی واقع ہے۔
ہم کتاب کے پہلے حصے کے بارے میں بحث ان احباب پر چھوڑتے ہیں جو مذہبی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہی بہتر بتا سکتے ہیں کے علم حدیث و رجال اور سند کے حوالے سے یہ روایت کتنی قابل اعتماد ہے۔ ہماری توجہ کتاب کے دوسرے حصے کی طرف ہوگی جہاں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ”جزیرۂ خضراء“ کا تعلق مثلث برمودا میں ہونے والے پر اسرار واقعات سے ہے۔ ہم میں سے کافی لوگوں نے مثلث برمودا کے متعلق کافی کچھ پڑھا یا سنا ہوگا، اس بارے میں مفروضوں پر مبنی کافی مواد یو ٹیوب پر بھی موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھتے ہیں کہ مثلث برمودا سے متعلق پراسراریت ہے کیا؟
مثلث برمودا بحر اقیانوس ”Atlantic Ocean“ میں واقع ہے۔ اس تکون کی پہلی جہت امریکہ میں میامی شہر، دوسری پورٹو ریکو اور تیسری جزائر برمودا ہیں۔ مثلث برمودا کے بارے میں پر اسراریت کا آغاز 1950 میں اسوسییٹڈ پریس میں ایڈورڈ وان وینکل کے ایک مقالے سے ہوا۔ مزے کی بات یہ کہ اس سے پہلے اس علاقے میں کسی بھی قسم کے پر اسرار واقعات کا کہیں بھی کوئی تذکرہ نہیں۔ وان وینکل کے مطابق اس علاقے میں پچھلے کئی برسوں میں بے شمار بحری اور ہوائی جہازوں کی پر اسرار گمشدگی کے واقعات رونما ہوے اور مجموعی طور پر 135 افراد لا پتہ ہوے۔
1955 میں ایک اور کتاب شائع ہوئی: The case of UFO by M۔ K Jessup، جس نے ان تمام واقعات کو ایک نئی جہت دی۔ مصنف کے مطابق یہ سب خلائی مخلوقات کی کارستانیاں تھیں، کیونکہ دعووں کے مطابق ان تمام واقعات میں جہازوں کا ملبہ نہیں ملا تھا اور نا ہی گمشدہ افراد کا کوئی نام و نشاں تھا۔ 1964 میں وینسنٹ گیڈس کے مقالے نے ایک نیا دعوی کر دیا کہ ان واقعات کے نتیجہ میں 1000 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ وینسنٹ گیڈس ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس علاقے کو مثلث برمودا کا نام دیا۔ 70 کی دہائی میں اس علاقے سے منسلک واقعات زبان زد خاص و عام تھیں اور اس بارے میں کئی کتب منظر عام پر آئیں جن میں نمایاں چارلز بر لیٹز کی ”The Bermuda Triangle“ تھی جس میں سارا زور ان واقعات کو غیر مرئی قوتوں سے جوڑنے کا تھا۔
ساٹھ کی دھائی سے ہی مختلف افراد مثلث برمودا سے متعلق واقعات کی مختلف وجوہات اور تشریحات بیان کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی پر بھی یقین کرنے سے پہلے کوئی بھی ذی شعور انسان ان واقعات کی سچائی پر ضرور غوروفکر کرے گا۔ خوش قسمتی سے ایسی ہی ایک متجسس روح لیری کوشے 1975 میں اس افسانوی داستان کے اوپر سے پراسراریت کا غلاف اٹھا چکی تھی۔ اپنی کتاب ”The Bermuda Triangle Mystery Solved“ میں مصنف نے تمام واقعات سے متعلق وسیع تحقیقات کیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ پوری داستان مبالغہ آمیزی، غلط حقائق، خودساختہ واقعات اور کچھ جگہوں پر مصنفین کی سراسر بد دیانتی پر مبنی ہے۔
کوشے کے مطابق اس موضوع پر لکھنے والے بیشتر مصنفین نے تحقیق کی زحمت ہی نہیں کی، بلکہ ان میں سے زیادہ تر نے پچھلے مصنفین کے درج کردہ ”حقائق“ کو من و عن اپنی کتابوں میں بغیر کسی تحقیق کے نقل کیا ہے۔ کچھ مواقع پر جن بحری/ہوائی جہازوں اور کشتیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے وجود کی کوئی دستاویزی ثبوت ہی نہیں۔ یاد رہے کہ بحری اور ہوائی نقل و حرکت بغیر دستاویز اور اندراج کے ناممکن ہے۔ اور جہاں پر حقیقت پر مبنی بحری/ہوائی جہازوں کا ذکر ہے وہاں مصنفین یہ بات گول کر گئے کہ ان جہازوں کی گمشدگی سمندری طوفان کے باعث ہوئی اور یہ بھی کہ حادثات کا شکار ان جہازوں کا ملبہ کب ملا۔ اور زیادہ تر درج شدہ واقعات مثلث برمودا کے حدود سے ہی باہر ہوئے ہیں۔ یہ بتاتے چلیں کہ عام سوچ کے برعکس، یہ علاقہ امریکا، جزائر کیریبین اور یورپ کے درمیان ایک نہایت ہی مصروف بحری اور فضائی تجارتی گزرگاہ ہے اور خاص طور پر تفریحی کشتیوں کے شوقین افراد کی پسندیدہ آماجگاہ ہے۔ تو منطقی طور پر یہاں پر حادثات کا نسبتا زیادہ امکان ہے۔
کوشے کی کتاب نے اس تمام افسانوی داستان کی پراسراریت پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ مثلث برمودا محض سازشی مفروضے تک محدود رہ گیا۔ یہاں یہ تذکرہ خالی از لطف نا ہوگا، کہ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد مثلث برمودا سے متعلق جہازوں کی پراسرار گمشدگی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔
لیکن آج بھی مختلف رسائل و جرائد اور مختلف ذرائع ابلاغ محض سنسنی کے لئے اس افسانوی داستان کو نمک مرچ لگا کر حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مثلث برمودا کے بارے میں عجیب وغریب خیالات رکھتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ بحیثیت قوم ہم میں تحقیق اور جستجو کی عادت ہی نہیں۔
آخر میں ورلڈ وائلڈ لائف فیڈریشن WWF اور Allianz کی 2013 میں شائع ہونے والی دنیا کی خطرناک ترین آبی گزرگاہوں کی رپورٹ پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بحری حادثات بحیرہ جنوبی چین، بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کی گزرگاہ اور بحر منجمد شمالی اور جزائر برطانیہ کی گزرگاہ پر واقع ہوتے ہیں۔ اس پوری رپورٹ میں مثلث برمودا کا کہیں بھی تذکرہ نہیں، اسی میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں!