ضیاء حیدری
محفلین
برنگ غالب
۔۔۔۔۔میاں دلی کیا حال احوال پوچھو ہو، یہاں تو ڈومنیاں بھی کفن پہنے گھومتی ہیں، دریافت پر معلوم ہوا کہ کرونا حفاظتی ڈریس ہے، سنا ہے ایک سال پرانی وبا شکل بدل بدل کران پر حملہ آور ہو رہی ہے، کئی لاشیں کمپنی باغ میں لائن سے قطار اندر رکھی دیکھی ہیں، پہچان نہ سکا کیوںکہ ان چہرے پر ماسک لگا ہوا تھا، میں نے پوچھا ماسک پہنے کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہوا یہ زندگی میں ماسک نہیں پہنتے تھے، اب چتا جلانے والوں کی حفاظت کے لئے پہنے ہوئے ہیں، دلی سات دفعہ اجڑ چکی ہے، مگر اس کے باسی اتنے خوف ذدہ نہ تھے، جتنا آٹھویں بار اجڑنے پر ہیں۔۔۔۔اور پڑوسی ملک کا کیا حال سناؤں وہاں یوپی کے لونڈوں لپاڑوں نے نیا ملک بنا لیا تھا، اب بھی ان کا وزیر اعظم اڑستھ سال کا لونڈا ہے،جو پہلے گیند بلا کھیلا کرتا تھا، اگر کسی کھلاڑی سے کیچ گر جاتا تھا تو اسے دوسری جگہ کھڑا کردیتا اور اسے کپتانی کرنا کہتا تھا، اب بھی نااہل وزیروں کوایک وزارت سےتبدیل کرکے دوسرے محکمہ کا وزیر بنا دیتا ہے اور اسےحکومت کرنا سمجھتا ہے،
مگر اس ملک میں نیا کچھ بھی نہیں، تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب ڈومنیوں کو ماڈل گرل کہتے ہیں، وہاں ماسک لینا تو کجا، سر پر ڈوپٹہ بھی ڈھنگ سے نہیں اوڑھا جاتا ہے، ان کا جذبہ اسلامی عید شاپنگ پر ختم ہے، اس قوم میں اتفاق نام کو نہیں ہے، البتہ ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ احتیاط نہیں کرتے ہیں، ماسک نہیں لگاتے ہیں، رش میں جاتے ہیں۔ ’پاریاں‘ کرتے ہیں، غرض یہ کہ ان کو جس جس کام سے روکو وہی کرتے ہیں، دنیا کرونا سے مررہی ہے اور یہ مونجھوں پر تاؤ دے رہے ہیں، اللہ نے بھی ان کو ڈھیل دے رکھی ہے۔
۔۔۔۔۔میاں دلی کیا حال احوال پوچھو ہو، یہاں تو ڈومنیاں بھی کفن پہنے گھومتی ہیں، دریافت پر معلوم ہوا کہ کرونا حفاظتی ڈریس ہے، سنا ہے ایک سال پرانی وبا شکل بدل بدل کران پر حملہ آور ہو رہی ہے، کئی لاشیں کمپنی باغ میں لائن سے قطار اندر رکھی دیکھی ہیں، پہچان نہ سکا کیوںکہ ان چہرے پر ماسک لگا ہوا تھا، میں نے پوچھا ماسک پہنے کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہوا یہ زندگی میں ماسک نہیں پہنتے تھے، اب چتا جلانے والوں کی حفاظت کے لئے پہنے ہوئے ہیں، دلی سات دفعہ اجڑ چکی ہے، مگر اس کے باسی اتنے خوف ذدہ نہ تھے، جتنا آٹھویں بار اجڑنے پر ہیں۔۔۔۔اور پڑوسی ملک کا کیا حال سناؤں وہاں یوپی کے لونڈوں لپاڑوں نے نیا ملک بنا لیا تھا، اب بھی ان کا وزیر اعظم اڑستھ سال کا لونڈا ہے،جو پہلے گیند بلا کھیلا کرتا تھا، اگر کسی کھلاڑی سے کیچ گر جاتا تھا تو اسے دوسری جگہ کھڑا کردیتا اور اسے کپتانی کرنا کہتا تھا، اب بھی نااہل وزیروں کوایک وزارت سےتبدیل کرکے دوسرے محکمہ کا وزیر بنا دیتا ہے اور اسےحکومت کرنا سمجھتا ہے،
مگر اس ملک میں نیا کچھ بھی نہیں، تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب ڈومنیوں کو ماڈل گرل کہتے ہیں، وہاں ماسک لینا تو کجا، سر پر ڈوپٹہ بھی ڈھنگ سے نہیں اوڑھا جاتا ہے، ان کا جذبہ اسلامی عید شاپنگ پر ختم ہے، اس قوم میں اتفاق نام کو نہیں ہے، البتہ ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ احتیاط نہیں کرتے ہیں، ماسک نہیں لگاتے ہیں، رش میں جاتے ہیں۔ ’پاریاں‘ کرتے ہیں، غرض یہ کہ ان کو جس جس کام سے روکو وہی کرتے ہیں، دنیا کرونا سے مررہی ہے اور یہ مونجھوں پر تاؤ دے رہے ہیں، اللہ نے بھی ان کو ڈھیل دے رکھی ہے۔