عبد الرحمن
لائبریرین
"لڑکے اب شادی کر بھی لو۔ چھبیس سال کے ہوچلے ہو۔ " ناصر نے ہر ملاقات میں اپنے واحد دوست عزیر کو یہ بات کہنا خود پر واجب کر لیا تھا۔ جواب میں عزیر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مسکرادیا۔ لیکن آج ایک آدھ فقرہ اس کی زبان سے بھی پھسل ہی گیا۔"اتنا آسان نہیں ہے یار، شادی اب فقط امیروں کا کھیل ہے۔مجھ سا مزدور آدمی تو بس خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔" آج شاید ناصر بھی بات کو حتمی کرنے کے موڈ میں تھا، سو پھٹ ہی تو پڑا۔"بکواس! بالکل بکواس!اگر تمھارے فلسفے کی بنیاد پر دین کی عمارت کھڑی ہوتی تو تعمیر ہونے سے پہلے ہی ڈھے جاتی۔ شہزادے !عقیدہ بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔اس بندھن میں خود کو باندھ کر تو دیکھو، برکت پیچھے پیچھے بھاگی چلی آئے گی۔ سنتے نہیں ہو بزرگوں سے آنے والی اپنا نصیب ساتھ لے کر آتی ہے۔" ناصر اپنے تئیں بڑی بات کہہ گیا تھا۔ "تم اتنے ہی میرے خیر خواہ ہو تو کروادوشادی۔ مجھے کیوں اعتراض ہوگا۔" بالآخر عزیر نے زچ ہوکر کہا۔اور اس کے یک دم حامی بھرنےپر ناصر بے ساختہ چپ ہوگیا۔
----------------------------
سرکاری نوکری کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بینک والے لاکھوں روپے قرض کی مد میں کھلے دل سے دے دیتے ہیں۔عزیر اپنے دوست کا بے حد احسان مند تھا۔ اس کی کوششوں سےعزیر کا ایک اچھے گھرانے میں رشتہ طے ہوگیا تھا۔ آج شادی میں وہ دھمال مچی کہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔تاہم ایک سال ہونے کو آیا برکت نے اب تک گھر کے دروازے پر دستک نہیں دی۔ عزیر گیلری میں کھڑا گلی کے بچوں کو "پکڑم پکڑائی" کھیلتا ہو ا دیکھ رہا ہے۔ایک لڑکا دس لڑکوں میں سے کسی ایک کو پکڑنے کے لیے دیوانہ وار دوڑ رہا ہے۔ جو لڑکا ہاتھ لگ جاتا پھر پکڑنے کی باری اس کی ہوتی ۔ جس کی جان چھوٹ جاتی اس کا اطمینان قابل دید ہوتا۔ چہروں کی طمانیت دیکھ کر عزیر کو بھی پتا نہیں کیوں قرار سا محسوس ہوتا۔ وہ بچوں کے چہرے سے پھوٹنے والی خوشی کو دیکھ کر کھلا سا جارہا تھا۔ تبھی اس کے دل میں یہ خیال آیا اگر میں بھی ان بچوں کے ساتھ بھاگنا شروع کردوں تو اپنے حصے کی برکت کو پکڑ کے اپنا کھویا ہوا اطمینان واپس لا سکوں گا؟؟؟
----------------------------
سرکاری نوکری کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بینک والے لاکھوں روپے قرض کی مد میں کھلے دل سے دے دیتے ہیں۔عزیر اپنے دوست کا بے حد احسان مند تھا۔ اس کی کوششوں سےعزیر کا ایک اچھے گھرانے میں رشتہ طے ہوگیا تھا۔ آج شادی میں وہ دھمال مچی کہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔تاہم ایک سال ہونے کو آیا برکت نے اب تک گھر کے دروازے پر دستک نہیں دی۔ عزیر گیلری میں کھڑا گلی کے بچوں کو "پکڑم پکڑائی" کھیلتا ہو ا دیکھ رہا ہے۔ایک لڑکا دس لڑکوں میں سے کسی ایک کو پکڑنے کے لیے دیوانہ وار دوڑ رہا ہے۔ جو لڑکا ہاتھ لگ جاتا پھر پکڑنے کی باری اس کی ہوتی ۔ جس کی جان چھوٹ جاتی اس کا اطمینان قابل دید ہوتا۔ چہروں کی طمانیت دیکھ کر عزیر کو بھی پتا نہیں کیوں قرار سا محسوس ہوتا۔ وہ بچوں کے چہرے سے پھوٹنے والی خوشی کو دیکھ کر کھلا سا جارہا تھا۔ تبھی اس کے دل میں یہ خیال آیا اگر میں بھی ان بچوں کے ساتھ بھاگنا شروع کردوں تو اپنے حصے کی برکت کو پکڑ کے اپنا کھویا ہوا اطمینان واپس لا سکوں گا؟؟؟