برگ گل۔۔۔سید نفیس الحسینی رحمۃ اللہ علیہ

سید نفیس شاہ صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ایک اعلیٰ خطاط، بہترین شاعر، سچے عاشق نبی اور اپنے وقت کے ولی کامل۔ ان کے مجموعہ کلام برگ گل سے ایک مختصر انخاب پیش خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سراپائے اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اے رسول امیں، خاتم المرسلیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب، اے تو عالی نسب، اے تو والا حسب
دودمانِ قریشی کے دُرِثمین، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے، جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

بزم کونین پہلے سجائی گئی، پھر تری ذات منظر پر لائی گئی
سید االاولیں، سید الآخریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

تیرا سکہ رواں‌ کل جہاں میں ہوا، اِس زمیں میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم، سب ہیں زیرِ نگیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی، تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی
تیرے انفاس میں‌ خلد کی یاسمیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

"سدرۃ ُالمنتہیٰ" رہگزر میں تری ، "قابَ قوسین" گردِ سفر میں تری
تو ہے حق کے قریں، حق ہے تیرے قریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی، زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی
"لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مصطفےٰ مجتبےٰ، تیری مدح وثنا، میرے بس میں ، دسترس میں نہیں
دل کو ہمت نہیں ، لب کو یارا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں، کوئی ہے ! وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں
توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

چار یاروں کی شان جلی ہے بھلی، ہیں یہ صدیق، فاروق، عثمان ، علی
شاہدِ عدل ہیں یہ ترے جانشیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

اے سراپا نفیس انفسِ دوجہاں، سرورِ دلبراں دلبرِ عاشقاں
ڈھونڈتی ہے تجھے میری جانِ حزیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
 
آرزو
یہی عرض کرنے کو جی چاہتا ہے
مدینے میں مرنے کو جی چاہتا ہے

یہ کس جانِ جاناں کا فیض نظر ہے
کہ جی سے گزرنے کو جی چاہتا ہے

بگڑنے ہی میں عمر گزری ہے ساری
خدایا! سنورنے کو جی چاہتا ہے
1417ھ/1997
 
اداس راہیں
طریق ہجرت سے متاثر ہو کر


حرم سے طیبہ کو آنے والے! تجھے نگاہیں ترس رہی ہیں
جدھر جدھر سے گزر کے آئے! اداس راہیں ترس رہی ہیں

رسول اطہر جہاں بھی ٹھیرے ، وہ منزلیں یاد کر رہی ہیں
جبینِ اقدس جہاں جھکی ہے، وہ سجدہ گاہیں ترس رہی ہیں

جو نور افشاں تھیں لحظہ لحظہ ، حضور انور کے دم قدم سے
وہ جلوہ گاہیں تڑپ رہی ہیں ، وہ بارگاہیں ترس رہی ہیں

صبائے بطحا غموں‌سے پر ہے، فضائے اقصیٰ بھی دکھ بھری ہے
اب ایک مدت سےحال یہ ہے، اثر کو آہیں ترس رہی ہیں

خیال فرما کہ چشم عالم تری ہی جانب لگی ہوئی ہے
نگاہ فرما، کہ ساری امت کی میٹھی چاہیں ترس رہی ہیں

نفیس کیسا یہ وقت آیا، سلوک و احساں کے سلسلوں پر
جہاں مشائخ کی رونقیں تھیں، وہ خانقاہیں ترس رہی ہیں
 
شہیدان بالا کوٹ
شہادت گاہِ بالاکوٹ سے واپسی پر

قبائے نور سے سج کر، لہو سے باوضو ہو کر
وہ پہنچے بارگاہ ِ حق میں کتنے سرخرو ہو کر

فرشتے آسماں سے ان کے استقبال کو اترے
چلے ان کے جلو میں باادب، باآبرو ہو کر

جہانِ رنگ و بو سے ماورا ہے منزل جاناں
وہ گزرے اس جہاں سے بے نیاز رنگ و بو ہو کر

جہاد فی سبیل اللہ نصب العین تھا ان کا
شہادت کو ترستے تھے سرپا آرزو ہو کر

وہ رہباں شب کو ہوتے تھے تو فرساں دن میں رہتے تھے
صحابہ کے چلے نقش قدم پر ہوبہو ہو کر

مجاپد سر کٹانے کے لیے بے چین رہتا ہے
کہ سر افرازہوتا ہے وہ خنجر در گلو ہو کر

سرمیداں بھی استقبال قبلہ وہ نہیں بھولے
کیا جام شہادت نوش انھوں نے قبلہ رو ہو کر

زمین و آسماں ایسے ہی جانبازوں پہ روتے ہیں
سحاب غم برستا ہے شہیدوں کا لہو ہو کر

شہیدوں کے لہو سے ارض ِ بالاکوت مشکیں ہے
نسیمِ صبح آتی ہے ادھر سے مشکببو ہو کر

نفیس ان عاشقان پاک طینت کی حیات و موت
رہے گی نقش دہر اسلامیوں کی آبرو ہو کر

1410ھ /1990
 

الف نظامی

لائبریرین
سراپائے اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اے رسول امیں، خاتم المرسلیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب، اے تو عالی نسب، اے تو والا حسب
دودمانِ قریشی کے دُرِثمین، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے، جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

بزم کونین پہلے سجائی گئی، پھر تری ذات منظر پر لائی گئی
سید االاولیں، سید الآخریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

تیرا سکہ رواں‌ کل جہاں میں ہوا، اِس زمیں میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم، سب ہیں زیرِ نگیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی، تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی
تیرے انفاس میں‌ خلد کی یاسمیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

"سدرۃ ُالمنتہیٰ" رہگزر میں تری ، "قابَ قوسین" گردِ سفر میں تری
تو ہے حق کے قریں، حق ہے تیرے قریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی، زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی
"لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مصطفےٰ مجتبےٰ، تیری مدح وثنا، میرے بس میں ، دسترس میں نہیں
دل کو ہمت نہیں ، لب کو یارا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں، کوئی ہے ! وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں
توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

چار یاروں کی شان جلی ہے بھلی، ہیں یہ صدیق، فاروق، عثمان ، علی
شاہدِ عدل ہیں یہ ترے جانشیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

اے سراپا نفیس انفسِ دوجہاں، سرورِ دلبراں دلبرِ عاشقاں
ڈھونڈتی ہے تجھے میری جانِ حزیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

سحان اللہ!!!
بہت خوب!
بہت عمدہ!
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔
 
Top