حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل
بریدہ دست تھے پرچم بلند کیا کرتے
شکستہ روح تیرے ارجمند کیا کرتے
وہیں مقیم تھےواعظ بھی شیخ بھی کل شب
تو میکدے کو سر شام بند کیا کرتے
لہو میں جن کے ہے لتھڑی ہوئی زباں انکی
وہ گرگ پرورش گوسفند کیا کرتے
وہ پیر تسمہ پا چمٹے ہوے تھے گردن سے
زمیں کے بوجھ تھے جو ، وہ ز قند کیا کرتے
جو مال و زر کے پجاری تھےمرتبوں کےغلام
کسی غریب کی بیٹی پسند کیا کرتے
بروج عشق فلک پر بلند تھے اتنے
کہ ہم زمین سے ان پر کمند کیا کرتے
بس انکی دید سے آنکھوں میں روشنی بھرتے
کہ ماہتاب کو مٹھی میں بند کیا کرتے
شکست وریخت کےمارے ہوئے تھےوہ خودبھی
تو انکے وار پھر ہم پہ گزند کیا کرتے
تیری گلی سے گذرتے تجھے نہیں ملتے
اذیت غم ہجراں دو چند کیا کرتے
عجیب شعر کہے ہیں غزل میں تم نے حسیب
خیال خام کو اس سے بلند کیا کرتے
حسیب احمد حسیب