بریسٹ کینسر : کیمو تھراپی ہر مریضہ کے لئے ضروری نہیں

چھاتی کے سرطان میں مبتلا بہت سی خواتین کو اپنے علاج کے دوران اس وقت سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جب انہیں کیموتھراپی کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے یا نہیں۔
لیکن اب کچھ مریضائوں کیلئے اس فیصلے میں آسانی ہو جائے گی۔ ایک نئے طبّی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بہت سی خواتین جو بریسٹ کینسر کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہی ہیں، وہ بہت محفوظ طریقے سے کیمو تھراپی ترک کر سکتی ہیں بشرطیکہ وہ ایک عام استعمال ہونے والے ’’جینومک ٹیسٹ‘‘ کی پیمائش میں اس حوالے سے معتدل یا کم تر اسکور حاصل کریں کہ انہیں دوبارہ سرطان میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ’’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی جائزہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ دوبارہ کینسر کے خطرے کے درمیانی زون میں جو مریضائیں خود کو پاتی ہیں وہ سرجری کے بعد صرف ہارمون تھراپی سے بھی اسی طرح فائدہ اُٹھا سکتی ہیں جس طرح کیموتھراپی کے ساتھ ہارمون تھراپی سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ نیویارک کے میموریل سلون کیٹرنگ کیئر سینٹر میں میڈیکل اونکولوجسٹ اور فزیشن ان چیف ڈاکٹر جوزبسیلجا کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر اس طریقہ کار پر عمل کرنے سے بریسٹ کینسر کی بہت سی مریضائوں کو غیرضروری کیموتھراپی سے نجات مل جائے گی۔
اس قسم کے بریسٹ کینسر کیلئے جو جینومک ٹیسٹ کیا جاتا ہے اسے OncotypeDX کہتے ہیں۔ اس ٹیسٹ میں سرجری کے وقت الگ کئے جانے والے ٹیومر کے ٹشو میں 21 جینز کی علامات کی پیمائش کی جاتی ہے اور صفر سے 100 کے پیمانے پر یہ پیشگوئی کی جاتی ہے کہ کینسر دوبارہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ’’اونکو ٹائپ۔ ڈی ایکس‘‘ 2004ء میں مارکیٹ میں آ چکا تھا۔
اس پر کی گئی ابتدائی ریسرچ میں یہ دیکھا گیا کہ بہت زیادہ خطرے میں مبتلا مریضہ کو یا جس نے اس پیمانے پر 26 سے 100 اسکور کیا ہو، اسے کیموتھراپی سے فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے کم تر خطرے سے دوچار خواتین جنہوں نے 10 یا اس سے کم اسکور کیا ہو انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح صرف امریکا میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال 65 ہزار ایسی خواتین Gray Zone میں داخل ہو رہی تھیں جو یقینی طور پر یہ نہیں جانتی تھیں کہ انہیں کیموتھراپی سے فائدہ ہوگا یا نہیں۔ یہ نیا طبّی جائزہ جسے TAILOR x کا نام دیا گیا ہے، اس میں ہزاروں مریضائوں کا سرسری ٹیسٹ لیا گیا جس میں دیکھا گیا کہ جو خواتین درمیانے زمرے میں تھیں یعنی انہوں نے 11 سے 25 کے درمیان اسکور کیا تھا انہیں 9 سال بعد اسی طرح کینسر سے محفوظ رہ کر زندہ رہنے کا موقع ملا جیسا کہ ان خواتین کو ملا تھا جنہوں نے کیموتھراپی کے ساتھ ہارمون تھراپی پر عمل کیا تھا اور جنہوں نے صرف ہارمون تھراپی کروائی تھی۔ 50سال سے کم عمر خواتین کو کیموتھراپی سے کچھ فائدہ ضرور ہوا تھا خاص طور پر انہیں جنہوں نے 21 سے 25 تک اسکور کیا تھا۔ اس جائزہ رپورٹ کی شریک مصنفہ ڈاکٹر کیتھی البین کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹرز اس قسم کی 70فیصد مریضائوں کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہیں خوامخواہ کیمو کی اذیت جھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہماری بے یقینی ختم ہو چکی ہے۔ اس تجربے کے دوران ریسرچرز نے 6 ممالک میں 10 ہزار سے زائد مریضائوں کا جین ٹیسٹ کیا تھا جو بریسٹ کینسر کے ابتدائی مرحلے کی سب سے عام قسم ہارمون ریسیپٹر پازیٹو، HER-2 نیگیٹو بریسٹ کینسر میں مبتلا تھیں جو لمفی غدود تک نہیں پھیلا تھا۔ اس تجربے میں شریک تقریباً 7 ہزار مریضائیں وہ تھیں جو درمیانی زمرے میں آتی تھیں اور انہوں نے 11 اور 25 کے درمیان اسکور کیا تھا۔
ان مریضائوں کو ریسرچرز نے دو ذیلی گروپوں میں تقسیم کیا تھا۔ ان میں سے ایک گروپ کا علاج صرف ایسٹروجن بلاک کرنے والے ہارمون تھراپی سے کیا گیا جبکہ دوسرے گروپ کو کیموتھراپی کے ساتھ ہارمون تھراپی بھی دی گئی۔ اس کے بعد ریسرچرز 9 سال تک مریضائوں کی صحت کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے رہے۔ ڈاکٹر جوز بسیلجا کہتے ہیں کہ کیموتھراپی سے بہت بڑی تعداد میں جانیں بچائی گئی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہےکہ اسے کب استعمال کرنا چاہئے اور کن مریضائوں کیلئے اس کے استعمال کی سفارش کرنی چاہئے۔ ایک لاٹھی سے سب کو ہانکنے کا دور اب ختم ہو رہا ہے اوریہ بہت اچھی خبر ہے۔
ماخذ
 
میری نند جنہیں میں آپا کہا کرتی تھی وہ ان کو یہ موزی مرض کھا گیا :cry:
ہمارے احباب میں سے دو خواتین اس مرض میں مبتلا ہوئی تھیں، ان کا بہت علاج کرایا گیا مگر جو اللہ کریم کو منظور تھا ۔ان دونوں کا انتقال ہو گیا ۔
اللہ کریم سب مسلمان مرحومین کی مغفرت فرمائیں ۔آمین
 
آخری تدوین:
Top