بر صغیر میں علم حدیث پر تحریک استشراق کے اثرات : دوسری قسط

تحریک استشراق کا تاریخی پس منظر

تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک استشراق کی روح ازل سے لے کر ابد تک موجود رہے گی، اور اس کی قدامت پر حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ ، پھر حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان کا ایک ساتھ اس دنیا میں بھیجا جانابھی دلالت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حق کے ساتھ باطل ، اسلام کے ساتھ کفر ، ایمان کے ساتھ الحاد کا ہونا استشراق کی ہی صورتیں ہیں ۔اس کے قدیم ہونے کی طرف اس شعر میں بھی اشارہ موجود ہے:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی

اس تحریک کا آغاز دراصل ظہور اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا اور باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرنے سے پہلے بھی ، اہل مغرب کی طرف سے ، اسلام کے خلاف بالعموم اور پیغمبر ِ اسلام کے خلاف بالخصوص ، بغض و عداوت کا اظہار موقع بہ موقع مختلف ادوار میں ہوتا رہا ہے، اور وفور جذبات سے سرشار ، رومی ، بازنطینی ، لاطینی ، مسیحی اور یہودی روایتیں صدیوں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں ، افواہوں کے دوش پر سفر کرتی رہیں، اور کبھی کبھار تحریر وتصنیف اور وقائع واسفار کے قالب میں ڈھلتی رہیں اور ان کی اپنی آئندہ نسلوں کا سرمائیہ افتخار قرار پائیں ۔ (4)
سب سے پہلے جس نے اسلام کے خلاف ، اس تحریک کا آغاز کیا وہ ساتویں صدی عیسوی کا ایک پادری جان (John) تھا، جس نے آنحضور کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی باتیں گھڑیں اور لوگوں میں مشہور کر دیں؛ تا کہ آپ کی سیرت وشخصیت ایک دیو مالائی کردار سے زیادہ دکھائی نہ دے ۔ جان آف دمشق کی یہی خرافات مستقبل کے استشراقی علماء کا ماخذ ومصدر بن گئیں، جان آف دمشق کے بعد عیسائی دنیا کے بیسیوں عیسائی اور یہودی علماء نے قرآن کریم اور آنحضو ر کی ذات گرامی کو کئی سو سال تک موضوع بنائے رکھا اور ایسے ایسے حیرت انگیز افسانے تراشے جن کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہ تھا، ان ادوار میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیا گیا کہ آپ امی نہیں؛بلکہ بہت پڑھے لکھے شخص تھے ، تورات اور انجیل سے اکتساب کر کے آپ نے قرآنی عبارتیں تیا ر کیں ، بہت بڑے جادوگر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ (العیاذ باللہ ) حد درجہ ظالم ، سفاک ، اور جنسی طور پر پراگندہ شخصیت کے حامل تھے ۔ فرانسیسی مستشرق کا راڈی فوکس(Carra de Vaux) نے آنحضور کی ذات گرامی کے بارے میں لکھاہے کہ محمد ایک لمبے عرصے کے لیے بلاد مغرب میں نہایت بری شہرت کے حامل رہے اور شاید ہی کوئی اخلاقی برائی اور خرافات ایسی ہو جو آپ کی جانب منسوب نہ کی گئی ہو ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ اسلام کی آمد سے کم وبیش آٹھ سو سال بعد تک مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف نفرت نا کافی اور ادھوری معلومات کی بنیاد پر ہی پنپتی رہیں، مثال کے طور پر گیارہویں صدی عیسوی کے آواخر میں( Song of Roland) جو پہلی صلیبی جنگوں کے دوران ہی وضع کیا گیا ، بہت مشہور ہوا ، اسی طرح کی بیہودہ باتوں پر مشتمل تھا۔(5)

استشراق اور استعمار
تحریک استشراق کی آبیاری میں انتہائی اہم ترین کردار استعمار نے ادا کیا ہے

رچرڈ کونگریو بشپ آف آکسفورڈ کہتا ہے

خدا نے ہندوستان کو ہمیں عطا کیا ہے تاکہ ہم اسے اپنے تسلط میں رکھیں لہذا یہ ہمارا کام نہیں کہ اس فرض سے دستبردار ہو جائیں .(6)

عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال
کے مصنف پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں

بیسویں صدی کے معروف برطانوی مؤرخ نائن بی نے تہذیبوں کے تصادم کے لیے Encounter of Civilization کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ دورِ حاضر کے یہودی مفکر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis) نے اس Encounter کو Clash کا درجہ دے دیا ہے۔ اسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی، امریکا کے پروفیسر سیموئل پی ہٹنگٹن نے اپنی کتاب (Clash of Civilizations) میں تہذیبوں کے اس تصادم میں آویزش کے اس تصور کو جنگی جنون تک بڑھا دیا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے تو اپنی کتاب ’’خاتمۂ تاریخ‘‘ (The End Hastory) میں دنیا کے مستقبل کو جس نگاہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس میں بالآخر اقتدار ایک یک محوری قوت کے پاس چلا جائے گا اور یوں باقی ماندہ دنیا ایک نوآبادی کی شکل اختیار کر لے گی۔
مغربی اقوام کے نزدیک اس تاریخی آویزش کا علاج گلوبلائزیشن یا عالمگیریت میں مضمر ہے۔ وہ اپنی عسکری قوت اور اقتصادی غلبے کے ذریعے سے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج دیکھنا چاہتے ہیں جس پر صرف اور صرف ان کی حکمرانی ہو مگر افریشیائی مسلمانوں کی نسلِ نو اپنے ایمان اور عقائد کی نئی تعبیر چاہتی ہے۔ تسخیرِ فطرت اور مظاہرِ کائنات کے مطالعہ کی تلقین ہمارے قرآنی صحیفے کی اہم تعلیم ہے، لہٰذا ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ مغرب کی اس ترقی کا جائزہ لینا ہو گا کہ جن نتائج اور سائنسی فتوحات کو ابھی تک مغرب نے حاصل کیا ہے، اس کے اصول کیا ہیں اور ان اصولوں کی اسلامی فکر کے ساتھ کس حد تک موافقت یا مغائرت موجود ہے۔ مغربی طاقتوں نے تسخیرِ کائنات کے اس سفر میں جہاں گیری اور جہاں داری کا درجہ تو حاصل کیا ہے مگر وہ جہاں بانی اور جہاں آرائی کے منصب سے محروم ہیں۔
جہانبانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خون ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
(طلوعِ اسلام، بانگِ درا) (7)
١٨٥٧ میں ہندوستان مکمل طور پر انگریز کے تسلط میں میں آ گیا یہ ایک ایسا علم منظر نامہ تھا کہ جب دنیا فرانسیسی ، پرتگیزی اور برطانوی استعمار کے بوجھ تلے کراہ رہی تھی
معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب " تاریخ اور آج کی دنیا " میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں
ہندوستان اور کولونیل آئیڈیو لوجی
صفحہ (٤٢ تا ٤٣)
ہندستان میں جیسے جیسے اہل برطانیہ کا سیاسی اقتدار قائم ہوتا چلا گیا اسی طرح کولونیل ئیڈیو لوجی کی تشکیل بھی عمل میں آتی رہی . ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی دور کو مشرقی دور کہا جا سکتا ہے یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کمپنی ہندوستان میں اپنا سیاسی اقتدار برقرار رکھ سکتی تھی وارن ہسٹنگز تک یہ رجحان برقرار رہا (١٧٧٤-١١٨٣) اسی دور میں رائل ایشیا ٹک سوسائٹی (١٧٨٤) قائم ہوئی اور برطانوی مستشرقین نے نے ہندستان کے ماضی کی دریافت اور شناخت میں پورا پورا حصہ لیا کیونکہ کولونیل آئیڈیو لوجی میں نالج یا علم کے ذریعہ رعایا پر کنٹرول کرنا اسکا ایک اہم حصہ تھا. (8)
میکالے کے آتے آتے تعلیم کے بارے میں کولونیل نقطۂ نظر بدل گیا ١٨٣٥ میں اس نے حقارت سے کہا عربی اور فارسی علوم کیلئے صرف ایک شلف چاہئیے .
ایک اور نقطۂ ننزر میں زوال پر بحث کرتے ہوئے اس کا اشارہ کیا کہ مسلمان معاشرہ بشمول ہندوستان کے مسلمان مذہبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشی طور پر زوال پزیر ہیں اسی وجہ سے وسط ایشیاء میں روس انکے ملکوں پر قابض ہو گیا ہے تو ایشیاء و افریقہ میں یورپی نے شکست دے کر انہیں اپنا تابع بنا لیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکی اندرونی تخلیقی توانائی ختم ہو چکی ہے لہذا اسکو جہاں سیاسی اتباع سے دیکھا گیا کہ انپر حکومت کرنا آسان ہے وہیں مذہبی اعتبار سے یہ سمجھا گیا کہ انہیں عیسائی بنا بھی آسان ہے اس سلسلے میں ا یورل پاؤل (Dr Avril A Powell) جرمن مشنری پمفندر کے خیالات بیان کرتے ہوے لکھتا ہے کہ اسلامی ریاستوں میں با عزت اور ایماندار اشرافیہ طبقہ کمزور ہو گیا ہے ، لہذا اسکی دلیل کے مطابق ہندوستان میں مسلمان اشرافیہ اخلاقی طور پر زوال پزیر ہے اور خود غرضانہ اور جذبات و خواہشات نے اسے معاشرے کیلئے برائی کی جڑ بنا دیا ہے (9)
حوالہ جات : تاریخ اور آج کی دنیا
مصنف : ڈاکٹر مبارک علی
ناشر : فکشن ہاؤس
استعمار کی استشراقی کاوشیں
استعمار نے سب سے پہلے اپنی مسیحی مشنریوں کو میدان میں اتارا لیکن انکو بدترین شکست سامنا کرنا پڑا
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا رحمت اللہ کیرانوی اسلام اور اہل سنت کے بڑے پاسبانوں میں سے تھے۔ آپ علماء دیوبند مولانا قاسم نانوتوی و‌مولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہم کے حلقۂ فکر کے ایک فرد تھے۔ جس زمانے میں ہزاروں یورپی مشنری، انگریز کی پشت پناہی میں ہندوستان کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، مولانا کیرانوی رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی مناظروں، تقریروں اور پیمفلیٹوں کے ذریعے اسلامی عقائد کے دفاع میں مصروف تھے۔ ١٢٧٠‌ه۔ بمطابق ١٨٥٤‌ء یعنی جنگ آزادی سے تین سال قبل مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے آگرہ میں پیش آنے والے ایک معرکہ کے مناظرہ میں عیسائیت کے مشہور مبلغ پادری فنڈر کو شکست دی۔
جنگ آزادی ١٨٥٧‌ء میں مولانا کیرانوی صوفی شیخ حضرت حاجی امداد اللہ (مہاجر مکی) رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں انگریز کے ساتھ قصبہ تھانہ بھون میں انگریز کے خلاف جہاد میں شامل ہوئے اور شاملی کے بڑے معارکہ میں بھی شریک ہوئے جس میں دیگر کئی لوگوں کے علاوہ ان کے ساتھی حافظ محمد ضامن رحمہ اللہ شہید ہوئے اور مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ زخمی ہوئے۔
انگریز کی فتح کے بعد مولانا کیرانوی دیگر مجاہدین کی طرح ہجرت کرکے حجاز چلے گئے۔ یہاں مولانا رحمہ اللہ تعالٰی نے پادری فنڈر کی کتاب میزان الحق کا جواب اظہار الحق تحریر فرمایا۔ حجاز سے سلطان ترکی کے بلانے پر قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) گئے اور وہاں عیسائیوں سے مناظرے کئے، وہاں سے اظهار الحق شائع بھی ہوئی۔ قسطنطنیہ کے مناظروں اور اظہار الحق کے متعلق مشہور مستشرق گارسان وتاسی کے مقالات میں ہے؛
کیمبرج کے شعبۂ دینیات میں پادری ولیم صاحب نے بتایا کہ مشرق میں اسلام کی تبلیغ زور شور سے ہو‌رہی ہے، قسطنطنیہ میں جو مذہبی مباحثے ہوئے ان میں مسلمانوں نے ایسی قابلیت دکھائی کہ بہت سے عیسائی فوراً مذہب بدلنے کو تیار ہوگئے۔ اس ضمن میں مقرر نے ایک نئی عربی کتاب کا ذکر کیا جس کا جواب مشرق کے عیسائیوں سے نہ بن پڑا۔ اگر ان کی یہی حالت رہی تو اسلام کے حملے کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔»(10)
مکہ میں مولانا کیرانوی رحمہ اللہ نے، ایک نیک خاتون بیگم صولت النساء کے فراہم کردہ عطیے سے ایک مدرسہ مدرسہ صولتیہ قائم کیا جو حجاز مقدس میں اصول میں اہل سنت اور فروع میں حنفی فقہ پر چلنے والوں کا نمائندہ ادارہ‌ ہے۔
علم حدیث اور مستشرقین
مستشرقین نے حدیث پر حملہ بنیادی طور پر سند اور متن کے حوالے سے کیا ہیں دو اہم ترین مستشرقین کا تعارف اور انکے کچھ افکار ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں .

ویسے تو ان دشمنانِ اسلام نے دین کے ہرشعبہ ہی کو نشانہ بنایا اور ہرگوشے کو مشکوک کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ حدیث پاک، قرآن پاک کے بعد سب سے اہم مصدر ہے، دین کی صحیح فہم اور اسلام کی حقیقی تصویر کشی، حدیث کے بغیر نامکمل رہتی ہے، اس لیے ہم مستشرقین کو دیکھتے ہیں کہ اس اہم مصدر کی طرف کچھ زیادہ ہی متوجہ رہتے ہیں اور آزاد تحقیق وریسرچ کے نام پر زہراگلتے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے نمایاں شخصیت ہمیں دو نظر آتی ہیں:
(۱) سب سے پہلی شخصیت گولڈزیہر (Gold Hazer) کی ہے، جس کو عربی کتابوں میں "جولدتسھر" سے جانا جاتا ہے یہ شخص جرمن کا یہودی ہے، اس نے تمام اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا اور ۱۸۹۰ء میں پہلی تحقیق شائع کی، جس میں پورے اسلامی مآخذ کو مشکوک ٹھہرایا اس کی سب سے اہم کتاب "دراسات اسلامیۃ" کے نام سے ملتی ہے، جس کو پڑھ کر بعض اسلام کے نام لیوا بھی اپنی راہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
(۲) دوسری شخصیت "جوزف شاخت" (Joseph Schacht) کی ہے جس نے سارے اسلامی علوم وفنون کا دقتِ نظری سے مطالعہ کیا، خاص طور پر "فقہ اسلامی" پر توجہ دیا اور مختلف چھوٹے بڑے رسالے لکھے "بدایۃ الفقہ الاسلامی" اس کی ضخیم کتاب ہے، جس میں اس نے سارے ہی مآخذ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔(11)
(تفصیلی حالات ملاحظہ کیجئے، موسوعۃ المستشرقین، تالیف عبدالرحمن بدوی)
حدیث کے متعلق سے "گولڈزیہر" نے زیادہ توجہ متن پر مرکوز کی، جب کہ "شاخت" نے سند اور تاریخ سند کو مشکوک قرار دیا، مندرجہ ذیل سطور میں انہی دونوں حضرات کے وہ شبہات جو بنیادی حیثیث رکھتے ہیں ذکر کئے جاتے ہیں۔
یہ بات تقریباً تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے کہ کتابت حدیث اور حفظ حدیث دونوں زمانہ نبوت سے شروع ہوچکے تھے، بعض صحابہ کے صحیفے اس کے لیے پیش کئے جاسکتے ہیں؛ مگر"تدوین رسمی" حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں ہوئی اس کا سہرا کسی ایک شخص پر نہیں؛ بلکہ مختلف علاقوں کے مختلف ذی استعداد قابل اعتماد حضرات کے ہاتھوں یہ کام ہوا؛ البتہ امام زہریؒ کا کارنامہ عظیم تھا ۔
اس لیےمستشرقین نے کوشش یہ کی کہ پہلی ہی بنیاد کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تاکہ ساری عمارت خود بخود ڈھ جائے؛ چنانچہ سب سے پہلا تیر گولڈزیہر نے یہ چلایا کہ حدیث بنی امیہ کے دور کی پیداوار ہے؛ یہی اسلام کا مکمل اور پختہ بلکہ دورِ عروج ہے؛ چنانچہ وہ لکھتا ہے:
"إن القسم الأكبر من الحديث ليس صحيحاً مايقال من أنه وثيقة للإسلام في عهده الأول عهد الطفولة، ولكنه أثر من آثار جهود المسلمين في عصر النهضة"۔(12)
کہ حدیث کا ایک بڑا حصہ صحیح نہیں ہے، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام کے یہ دستاویز عہد اوّل جوعہد طفولت ہے سے چلے آرہے ہیں یہ تومسلمانوں کے دورِ عروج کی کوششوں کے آثار میں سے ہے۔
پھراس الہام کی تشریح اس طرح کی کہ پہلی صدی ہجری میں امویین وعلویین کے دوگروہ آپس میں نبردآزما ہوئے، کسی کے پاس قرآن وحدیث سے ٹھوس دلائل نہیں تھے اس لیے کچھ حدیثیں گھڑ کر چلتا کیا گیا، ہرگروہ نے اپنے زعم کے مطابق حدیثیں گھڑیں، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکومت کی سرپرستی بھی حاصل رہی؛ بلکہ شاباشی دی گئی، حضرت امیرمعاویہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے یوں کہا تھا:
"لَاتَھْمِلْ فِیْ أَنْ تَسُبَّ عَلِیاً وَأَنْ تَطْلُبَ الرَّحْمَۃَ لِعُثْمَانَ وَأَنْ تَسُبَّ أَصْحَابَ عَلِیٍ وَتَضْطَہَدُ مِنْ أَحَادِیْثِہِمْ وَعَلَی الضِدِّ مِنْ ھَذَا وَأَنْ تَمَدَّحَ عُثْمَانَ وَأَھْلَہُ وَأَنْ تَقْرُبَھُمْ وَتَسْمَعْ اِلَیْہِمْ"۔
کہ حضرت علی پر سب وشتم کرنا، حضرت عثمان کے حق میں رحمت کی دعا کرنا؛ نیزاصحاب علی کو گالی گلوج کرنا ان کی حدیثوں کے خلاف حدیثیں گڑھنا مت چھوڑو۔
اس امر کی تائید
پھر تائید میں یہاں تک کہا کہ دیکھتے نہیں:
"فَإِنَّهُ لَاتُوْجَدْ مَسْأَلَةٌ خِلَافِيَّةٌ، سِيَاسِيَّةٌ أَوْاِعْتِقَادِيَّۃٌ، إِلَّاوَلَهَا اِعْتِمَادٌ عَلَى جُمْلَةِ مِنَ الْأَحَادِيْثِ ذَاتَ الْإِسْنَادِ الْقَوِيِّ"۔ (13)
کہ کوئی بھی مسئلہ ہو خواہ وہ سیاسی ہو یااعتقادی ہرباب میں قوی سند والی حدیثوں پر اعتماد کو پائیں گے۔
پھراس کے بعد مستشرق گولڈزیہر نے لکھا:
"وَعَلَی ھَذَا الْاَسَاسِ قَامَتْ أَحَادِیْثُ الْأُمَوِیِّیْنَ ضِدَّ عَلِیٍّ"۔
کہ اسی اساس پر حضرت علی کے خلاف، امویین کی حدیث کا دارومدار ہے
بنوامیہ نے اس کام کے لیے زہری کو خریدا
اپنی جھوٹی عمارت کی تعمیر کے لیے بنوامیہ کا ایک بادشاہ عبدالملک بن مروان نے چال چلی کہ جب فتنہ عبداللہ بن زبیر کے موقع پر حج سے ممانعت کردی گئی تو عبدالملک نے بیت المقدس میں "قبۃ الصخرہ" کی تعمیر کرکے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس وقت کے نامور محدث، جن کا دور دور تک شہرہ تھا، یعنی امام زہری کو اس کام کے لیے راضی کیا کہ بیت المقدس کی فضیلت کے باب میں کوئی حدیث گڑھیں؛ چنانچہ زہری نے ایک مشہور حدیث گھڑی جس کو امام مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے:
"لَاتَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّاإِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِي هَذَاوَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى"(14)
یہ زہری کے موضوعات میں سے ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جتنی سندیں بھی منقول ہیں سب جاکر زہری پر منتہی ہوتی ہیں۔
ایک دل فریب مکاری جو امویو نے رچی
مستشرقین نے زہری کی بابت ایک عجیب قصہ نقل کیا ہے جو مختلف سندوں سے کتابوں میں محفوظ ہے کہ ابراہیم بن الولید اموی زہری کے پاس ایک صحیفہ لایا، جس میں اپنی من پسندروایتیں لکھ لی تھیں اور زہری سے اس کی اجازت طلب کی، زہری نے بھی بلاکسی تردید کے اس کی اجازت دے دی،اور یہ فرمایا:
"مَنْ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُخْبِرَکَ بِھَا غَیْرِی؟"۔
کہ میرے علاوہ اس کی خبر تم کو اور کون دے سکتا ہے۔
اس طرح اس صحیفہ کی روایتیں زہری کے حوالے سے بیان کی جانے لگی۔(15)

زہری کی مجبوری
خود امام زہری کے ذاتی احوال میں اس طرح کی باتیں ہیں کہ بادشاہوں کی ہاں میں ہاں ملانا باعثِ فخر تصور کرتے ہیں؛ خواہ اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ ہشام نے اپنے ولی عہد کے اتالیقی کی پیش کش کی، یزید ثانی نے منصبِ قضا کا عہدہ دیا، سب کوبخوشی قبول کیا، جب کہ علماء کے نزدیک یہ ایک محقق مسئلہ ہے :
"مَنْ تَوَلّیٰ الْقَضَاءَ فَقَدْ ذَبَحَ بِغَیْرِ سِکِّیْنٍ"۔
جس نے عہدۂ قضاء قبول کیا اسے اُلٹی چھری سے ذبح کردیا گیا۔
البتہ ہوسکتا ہے کہ اس تقرب کی وجہ امام زہری کوحدیثوں کے گڑھنے کی مجبوری ہو؛ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر آپ نے کھل کر اعتراف کیا:

"أَكْرَهْنَا هَؤَلَاءِ الْأُمَرَاءَ عَلَى أَنْ نَكْتُبَ أَحَادِيْثَ"۔
کہ ان امراء نے ہمیں حدیثوں کے گڑھنے پر مجبور کیا۔
 
Top