اسد قریشی
محفلین
بر صلیبِ آرزو، رات، تنہائی، دیا!
کر رہے تھے گفتگو، رات، تنہائی، دیا!
درد کو فرصت نہ تھی، دیکھتے ہی رہ گئے
آنکھ سے بہت لہو، رات، تنہائی، دیا!
کام تھا مشکل مگر، عمر بھر کرتے رہے
اک خراشِ دل رفو، رات، تنہائی، دیا!
کس پہ میں کرتا یقیں، رہنما کرتا کسے
ہو رہے میرے عدو، رات، تنہائی، دیا!
گر جدا ہونا ہی تھا ساتھ دیتا تو کوئی
آبلہ پا، دل لہو، رات، تنہائی، دیا!
غم بھلانے کے لئے دل فگاراں کو بہت
تم اسد، خم اور سبو، رات، تنہائی، دیا!
اسد